تحریر: آصف محمود چودھری
تعلیم کسی بھی معاشرہ کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک شرح خواندگی میں اضافہ ، تعلیمی ترقی کیلئے جو بھی حکومت آئی تعلیم پر نت نئے تجربات ہی کرتی چلی گئی ۔ ہرحکومت نے ایک نیا تعلیمی منصوبہ دیا اربوں روپے خرچ ہوئے کچھ عرصہ تک چلا پھر ناکام ہو کر بند ہوگیا کبھی نئی روشنی سکول کھولے گئے تو کبھی تعلیم بالغاں کے نام پر کثیر رقم خرچ کی گئی کبھی انصاف آفٹر نون سکولوں کے نام پر قوم کے ٹیکسوں کا پیسہ ضائع ہوا اسی طرح اس منصوبہ کے انفراسٹرکچر پر ہونیوالا کثیر زرمبادلہ بھی برباد ہوگیا۔ مگر تعلیم کامعیار بلند نہ ہوسکا۔سابق وزیراعلی پنجاب غلام حیدر وائیں مرحوم نے پرائیویٹ سکولوں کی مالی معاونت کے لئے پنجاب ایجوکیش فاونڈیشن قائم کی جسے سابق وزیر اعلی چوہدری پرویزالہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت صوبہ بھر کے دور دراز پسماندہ ترین علاقوں میں مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے از سر نو ڈیزائن کیا۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں جان ڈالی اور میدان عمل میں لاکھڑا کیا انکے دور حکومت ختم ہونے کے بعد سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے اس پراجیکٹ میں مزید اصلاحات کر کے اسے بین الاقوامی معیار کا تعلیمی منصوبہ بنا دیا حکومتیں تبدیل ہوتی گئیں لیکن یہ منصوبہ اپنے وثزن کے مطابق پھلتا پھولتا رہا ہے اور حکومت کی سرپرستی میں اس منصوبہ نے بھرپور ترقی کی۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن بین الاقوامی معیار کا واحد کامیاب ادارہ ثابت ہوا جس میں انتہائی کم اخراجات پر بہترین تعلیمی نتائج ملے۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے پرائیویٹ پبلک سکولز پارٹنر شپ پراجیکٹ کے تحت شہروں اور خصوصا دیہی علاقوں میں نجی سکولز مالکان کیساتھ ”فاس پروگرام“(FAS) .نیو سکول پروگرام‘(NSP) . اور ووائوچر سکول پروگرام‘ (EVS) کے تحت پارٹنرشپ کی FAS پروگرام کے تحت شہری اور دیہی علاقوں میں اچھی کارکردگی کے حامل سکولوں سے معاہدے کیے ان کے طلباوطالبات کے ٹیسٹ لینے کے بعد انہیں منصوبہ میں شامل کیا جبکہ ای وی ایس پروگرام ایسے علاقوں میں شروع کیے گئے جہاں معیارتعلیم بہت کم اورتعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں ایسے علاقوں میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نمائندوں نے گھرگھر جاکر سروے کیا اور بچوں کوووچرز تقسیم کیے اوران ووچرز کی مدد سے پیف سے ای وی ایس پراجیکٹ کے تحت الحاق سکولوں میں داخلہ دے کر انہیں تعلیمی سہولیات فراہم کیں اسی طرح این ایس پی پروگرام ایسامنصوبہ تھاجہاں آبادی کے اردگرد ایک کلومیٹر کے فاصلے پرکوئی سرکاری یا پیف سے الحاق شدہ کوئی تعلیمی ادارہ نہ تھا اس علاقہ میں پیف نے این ایس پی سکولز قائم کرکے لوگوں کوان کے گھروں کے قریب تعلیمی سہولیات فراہم کیں۔پنجاب ایجوکیش فاونڈیشن کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ چولستان میں جہاں زندگی انتہائی کٹھن ہے وہا پر موبائل سکولز قائم کر کے چولستانیوں کے بچوں کو بہترین تعلیمی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اگر سرکاری تعلیمی اداروں اور پیف سکولوں کا موزانہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اسوقت 11616696 بچے زیر تعلیم ہیں اور ان کیلئے سالانہ421 ارب6 کروڑ روپے بجٹ مختص کیاگیا ہے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں پر فی طالب علم سالانہ 36246 روپے جبکہ ماہانہ 3020 روپے خرچ آتا ہے اس کے مقابلے میں پیف پارٹنر سکولوں کیلئے پنجاب میں 21 ارب50 کروڑ روپے کا بجٹ منظور ہوا ہے جو گزشتہ برس کی نسبت دو ارب روپے زیادہ ہے ۔ پنجاب ایجوکیش فاونڈیشن کے سکولوں میں بچوں کی تعداد2751141 تھی جو اب تجاوز کرکے 30 لاکھ تک پہنچنے کو ہے۔ پیف پارٹنر سکولوں میں زیر تعلیم بچوں پرسالانہ فی بچہ خرچ 7815 روپے جبکہ ماہانہ651 روپے بنتے ہیں اس کے مقابلے میں اگر تعلیمی معیار کاجائزہ لیاجائے توسرکاری تعلیمی اداروں سے پیف پارٹنرسکولوں کا معیار تعلیم کہیں بہتر ہے. اور پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز میں پوزیشن ہولڈرز اکثریت پیف پارٹنرز سکولوں کے طلباء و طالبات کی ہوتی ہے جبکہ بجٹ کا تناسب پیف سکولوں سے سرکاری سکولوں کابجٹ 20 گنا زیادہ ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر اسدنعیم نے اپنے عہدے کاچارج سنبھالتے ہی پیف پارٹنرسکولوں کی بہتری ترقی اورمعیار تعلیم کو مزید بہتر بنانے کیلئے قابل ستائش اقدامات کیے ہیں۔غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کیلئے مفت تعلیمی سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات یقینا پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا عظیم کارنامہ ہے۔ ایم ڈی پیف اسدنعیم اور انکی ٹیم جن میں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر زبیدالحسن، ڈائریکٹر FAS ڈاکٹر افتخار ربانی کی کاوشوں سے زیادہ سے زیادہ انٹرولمنٹ کرنے اورغریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے کلاس رومز میں طلباوطالبات کی تعداد 35سے بڑھا کر40 کر دینے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ پیف پارٹنرسکولز کی ماہانہ فیسیں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے برابر لانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں بچوں کے داخلہ جات کی تاریخ میں توسیع کر دی گئی ہے اور انفراسٹرکچر کے مطابق داخلوں کو لامحددو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح کلاس نہم ، دہم کے کیواے ٹی ٹیسٹ تعلیمی بورڈز پیٹرن پر تیار کرنے سیکنڈری سکولز کواپ گریڈ کرکے ہائیر سیکنڈری کلاسز کے اجرا کیلئے بھی اقدامات کیے جا رہے ۔کوالٹی انشورنس ٹیسٹ (QAT) میں اچھی کارکردگی کے حامل سکولوں او انکے اساتذہ کو50۔ 50 ہزار روپے اعزازیہ دیا جاتا تھاجو 2016 میں بند کر دیا گیا تھا اب دوبارہ 50 ہزار روپے سکول مالکان اور50 ہزار روپے اساتذہ کواعزازیہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ا سکے علاوہ پنجاب بھرمیں نمایاں پوزیشن کے حامل سکولوں کی درجہ بندی کر کے انکو ماڈل سکولز بنائے جا رہے ہیں جو سکولز اے پلس درجہ پا کر ماڈل سکولز قرار پائیں گے ان سکولز مالکان اور اساتذہ کیلئے تین لاکھ روپے انعام بھی مقرر کیا گیا ہے تاکہ تعلیم کامعیار بین الاقوامی معیار کے برابر لایاجا سکے۔ پیف پارٹنرسکولوں میں معیارتعلیم قائم کرنے کیلئے مربوط مانیٹرنگ سسٹم کے تحت مزید 80 MEO,s بھرتی کیے جا رہے ہیں تاکہ مانیٹرنگ کے نظام کو مزید بہتر بنا کر کوالٹی ایجوکیشن کو فروغ دیا جا سکے ۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن میٹنگز بحال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایم ڈی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسدنعیم نے تعلیم دوست پالیسی میں اصلاحات لاکر معیار تعلیم مزید بہترکرنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں ۔پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن وہ واحد ادارہ ہے جسے عالمی سطح پر کوالٹی ایجوکیشن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے یہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کا سب سے سستا ترین ذریعہ ہے جسے مزید فروغ دے کر خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اگر حکومت پنجاب فروغ تعلیم کے لئے پنجاب ایجوکیش فاونڈیشن کی سر پرستی کرے اور مہنگائی کے تناسب سے بجٹ میں مزید اضافہ کر کے پیف سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی فیسوں میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے برابر اضافہ کرے تو پنجاب میں تعلیمی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر اسد نعیم کی کاوشوں سے چولستان میں مزید موبائل سکولز قائم کیئے جا رہے ہیں جسکا باضابطہ اعلان بھی ہو چکا ہے جو کہ قابل ستائش عمل ہے اس سے چولستان کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔ اگر مہنگائی کے تناسب سے پیف سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی فیسوں میں اضافہ نہ ہوا تو اتنی مہنگائی کے عالم میں پیف پارٹنرسکول مالکان بھی مشکلات کاشکار ہو جائینگے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں جس سے پنجاب کی سطح پر پیف کے اس اقدامات سے بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے حکومت پنجاب نے ایسے سرکاری تعلیمی ادارے جہاں معیار تعلیم مایوس کن اور زیر تعلیم بچوں کی تعداد کم تھی ایسے تعلیمی ادارے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت پیف پارٹنر کودیئے گئے تووہاں سے بھی تسلی بخش نتائج ملے ہیں۔ جو اس بات کاثبوت ہیں کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا معیار تعلیم گورنمنٹ سکولوں سے بہت بہتر ہے اورانتہائی کم اخراجات پر بہترین معیاری تعلیم دے رہے ہیں حکومت کوچاہیے کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا بجٹ ساڑھے21 ارب روپے سے بڑھا کر کم ازکم 100 ارب روپے کیاجائے پیف پارٹنر سکولوں کی ماہانہ فیسوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مزید پیف پارٹنر سکول بنائے جائیں تاکہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب لوگوں کے بچے بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہوسکیں اس سے یقینا شرح خواندگی میں اضافہ ہوگاجو ملکی ترقی کاباعث بنے گا۔ حکومت کو سرکاری تعلیمی اداروں اور پیف پارٹنرز سکولوں کے تعلیمی معیار کاموازانہ کرکے شرح خواندگی میں اضافہ اور پڑھا لکھا پنجاب بنانے کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی مثبت قدم اٹھانا پڑےگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو تعلیم پر طویل مدتی ایک ٹھوس اور جامع پالیسی بنانا ہوگی حکومت چاہے جس جماعت کی بھی آئے لیکن تعلیمی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنا ہو گا تاکہ ہم اپنا تعلیمی نظام بہتر بنا کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔