تحریر: نعیم احمد ناز
موسمی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بنیادی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے اقدامات کرنا ایک اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ موسمی تبدیلی ہر ایک کو متاثر کرتی ہے، لیکن پاکستان میں تحفظ ماحول کے لیے نہ تو ذرائع ابلاغ میں کوئی بڑی مہم دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی سیاسی محاذ پر۔ پالیسی ساز ادارے بھی مستقبل کی خوف ناک ماحولیاتی صورت حال کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی میں بہت کم اضافے کا باعث بن رہا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں یہاں قدرتی وسائل اور فطری ماحول کو کافی خطرات لاحق ہیں۔ اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمی تبدیلی سے متعلق نئی نسل کو آگہی فراہم کی جائے اور بطور الگ مضمون کے، اسے قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر ملک بھر کے اسکولوں میں پڑھایا جائے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب نے طلباء و طالبات کو موسمی تبدیلی کے مضمرات اور عوامل سے آگاہ کرنے اور سرسبز و شاداب ماحول کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرنے کے لیے سرکاری سکولوں میں موسمی تبدیلی کو بطور مضمون پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں یونیسکو کی معاونت سے ‘بچوں کی سبز کتاب’منظر عام پر لائی گئی ہے جس کا دوسرا یڈیشن بھی شایع ہو گیا ہے۔ رنگین تصاویر اور دیدہ زیب گرافکس سے آراستہ اس کتاب کا متن ایک لڑکے خضر اور لڑکی گُل کے کردار کے گرد گھومتا ہے، جو چھٹی اور ساتویں جماعت کے طالب علم ہیں اور موسمی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت میں اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور اور ایم این ایس یونی ورسٹی آف ایگریکلچر ملتان کے ماہرین کی آراء کو مدنظر رکھا گیا ہے جب کہ پنجاب ٹیکسٹ اینڈ کریکولم بورڈ نے بھی اسے ایک نصابی مضمون کے طور پر سرکاری سکولوں میں پڑھانے کی منظوری دی ہے۔ اس کتاب میں موسمی تبدیلی اور اس سے جڑے متعلقہ معاملات جیسے جنگلات، زراعت، ہارٹی کلچر ، کچن گارڈننگ، پانی کی اہمیت اور دیگر مضمون شامل ہیں۔ بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق کتاب کو انتہائی آسان الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ کتاب کے ہر باب کے تین حصے ہیں۔ ایک کہانی ہے، دوسرے حصے میں تجزیاتی سوالات ہیں جس میں بچہ اپنا ذہن لگا کر ان سوالوں کا جواب دے گا، اور تیسرے حصے میں دو پریکٹیکل ہیں۔ ایک سکول کے لیے اور ایک گھر کے لیے جو اسے گھر والوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر احتشام انور ہیں جو اس وقت کمشنر بہاول پور ڈویژن کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ جولائی 2020ء میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد آپ کو محکمہ سکول ایجوکیشن کے پہلے سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ستمبر 2020ء سے جنوری 2023ء تک آپ اس منصب پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر احتشام انور کا اسلوب کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ‘بچوں کی سبز کتاب’ میں انہوں نے اپنے کثیر مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں مختلف عنوانات کے تحت مختصر مگر پُراثر مکالمے کی شکل میں طلبہ کو موسمی تبدیلی کے سلسلے میں آگہی کی طرف راغب کرنے کے لیے سرسبز و شاداب ماحول کی اہمیت، شجر کاری کی ضرورت، طریق کار اور اپنے تجربات کو جمع کیا ہے۔ ڈاکٹر احتشام انور کے مطابق موسمی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو صاف اور سرسبز ماحول کی اہمیت اور اس سے متعلقہ مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو، لہذا ‘بچوں کی سبز کتاب’ کی اشاعت کا مقصد ہر سکول کو آب و ہوا کے لیے تیار کرنا ہے، ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں کسی بھی جگہ موسمی تبدیلی کو سکولوں میں بطور ایک مضمون نہیں پڑھایا جا رہا۔ اسی لیے ‘بچوں کی سبز کتاب’ کے منصوبے کی کامیابی کے بعد پاکستان دنیا کے لیے ایک ٹرینڈ سیٹر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کو یونیسکو بھی بھیجا گیا جن کی جانب سے دریائے سندھ کو مزید واضح طور پر بیان کرنے اور پانی کے حوالے سے ایک کہانی اس کتاب میں شامل کرنے کی تجاویز آئیں جن کے تناظر میں ہم نے ‘پانی کہانی’ کے نام سے کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ کیا جب کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے ‘سیلاب کی تباہ کاریاں’ کے عنوان سے ایک نیا باب بھی دوسرے ایڈیشن میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلی کے نتیجے میں گزشتہ سال ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے ملک کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ڈاکٹر احتشام انور نے بتایا کہ’بچوں کی سبز کتاب’ تھیوری نہیں بلکہ موسمی تبدیلیوں بارے کہانیوں پر مبنی کتاب ہے۔
محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب کی اس کاوش سے پاکستان دنیا کا پہلا ملک ٹھہرا ہے جہاں سکولوں میں موسمی تبدیلی کے مضر اثرات بارے کتاب نصاب میں شامل ہے اور اس اقدام کی بدولت پاکستان کا دنیا بھر میں نام روشن ہوا ہے۔ برطانوی وزیر تعلیم نے موسمی تبدیلی کے نصاب بارے سیکرٹری سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب سے زوم میٹنگ کے ذریعے رابطہ کر کے ‘بچوں کی سبز کتاب’ بارے معلومات حاصل کی ہیں جب کہ اقوام متحدہ نے بھی محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب کے اس احسن اقدام کی تعریف کی ہے۔
پاکستان کے ثقافتی و موسمی تناظر میں یہ کتاب کہانی کی شکل میں خوب صورت اور جامع انداز میں لکھی گئی ہے اور یونیسکو کی شائع شدہ رپورٹ میں بیان کردہ رہنما خطوط کی پیروی کرتی ہے، ‘بچوں کی سبز کتاب’ کی اشاعت، سرکاری سکولوں میں تقسیم اور تدریس کے لیے یونیسکو کا ادارہ محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب کو معاونت فراہم کر رہا ہے۔ مزید برآں ‘بچوں کی سبز کتاب’ اپنے مواد کے ضمن میں خود کو صرف بچوں کی تعلیم تک محدود نہیں رکھتی بلکہ خاندان کے تمام دلچسپی رکھنے والے افراد کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔
معلومات اور طرز تحریر سے ڈاکٹر صاحب اپنے قاری کو متاثر کرتے اور دل و دماغ کو اسیر کرتے نظر آئیں گے۔ کتاب واقعی پڑھے جانے کے لائق ہے، یہ موٹیویشن دیتی ہے۔ طباعتی مراحل سے گزرنے سے پیشتر ہم نے اس کے اصل کا متن کا مطالعہ کیا تھا، جو لطف آیا ہم اس کے اظہار پر خود کو غیر قادر محسوس کرتے ہیں۔ محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب کا یہ تعلیمی اقدام موسمی تبدیلیوں کے بارے میں بیداری لانے کا باعث بن سکتا ہے اور ماحول دوست طریقوں پر عمل کرنے کی اہمیت گھرانوں تک پہنچ سکتی ہے۔
والدین، اساتذہ، طلبہ اور دیگر شہریوں کی طرف سے مواد کا جائزہ لینے، تبصرے اور اس میں مزید بہتری کی آراء دینے کے لیے ویب سائٹ www.thechildrengreenbook.net پر ‘بچوں کی سبز کتاب’ کا ڈیجیٹل ورژن دستیاب ہے۔
‘بچوں کی سبز کتاب’ کے علاوہ محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب نے میاواکی جنگل اگانے کا انقلابی اقدام اٹھاتے ہوئے دو مراحل میں جنوبی پنجاب کے 500 سے زائد سکولوں میں میاواکی جنگل بھی قائم کیے ہیں۔
گزشتہ روز موسمی تبدیلی اور مستقبل کے چیلنجز بارے نبرد آزما ہونے کے لیے محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب، بہاول پور کی ڈویژنل انتظامیہ، یونی سیف اور دیگر سماجی تنظیموں کے اشتراک سے اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور کے عباسیہ کیمپس میں کانفرنس آف پارٹیز برائے موسمی تبدیلی کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں تعلیمی افسران، ماہرین ماحولیات، اساتذہ، طلبہ اور سماجی تنظیموں کے نمائندگان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر ‘بچوں کی سبز کتاب’ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کمشنر بہاول پور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ موسمی تبدیلی کے نقصانات سے تحفظ کے لیے نئی نسل کو آگہی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، سکول کے طلباء و طالبات کو موسمی تبدیلی کے نتیجہ میں درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ‘بچوں کی سبز کتاب’ کو سلیبس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فوکل پرسن/ سیکشن آفیسر سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب بریحہ زینب نے کہا کہ محکمہ سکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب نے سرکاری سکولوں میں وسیع پیمانے پر شجرکاری اور طلبہ و طالبات کو ماحول دوست اقدامات بارے ترغیب دینے کے لیے ‘بچوں کی سبز کتاب’ کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے تقریب کے شرکاء کو ‘سبز کتاب’ کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا.
اس موقع پر موٹیویشنل سپیکر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو موسمی تبدیلیوں بارے آگاہی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کانفرنس آف پارٹیز برائے موسمی تبدیلی میں ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ اقبال، پروفیسر ڈاکٹر عابد رشید گل، یو این ڈی پی نمائندہ سمیرا جبیں، یو این ویمن نمائندہ سدرہ ہمایوں نے بھی خطاب کیا، اس موقع پر پاک سرزمین تنظیم کے نوجوانوں نے تقریب میں بھرپور انداز میں شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر موسمی تبدیلی آگاہی پروگرام میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر طلباء و طالبات کو توصیفی اسناد سے نوازا گیا۔