اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی روشن حیات طیبہ کا خوبصورت تذکرہ

Hazrat Syed Jalauddin Haider Surukhposh Bukhari (RA)
حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کا بیرونی منظر

تحریر :پروفیسرمحمد الطاف ڈاہر

سرائیکی وسیب اور تصوف دونوں آپس میں لازم ملزوم ہیں۔صوفی ازم سرائیکی دھرتی کی روحانی دھڑکن ہے۔جس طرح سمندر اپنے اندر بے شمار قیمتی خزانوں کو دنیا سے اوجھل رکھتا ہے،صرف وہی ہیرے موتی حاصل کرتاھے جس کو اللہ پاک کی رحمت و کامیابی پر مکمل اعتماد و یقین ہو۔جلال آتش اورفلاح انسانیت کی فکر ہر مشکل امتحان کو آسان بنا دتی ہے۔جو کام سائنس فزکس طبعیات نہیں کرسکتی، پھر اس کی جگہ میٹا فزکس مابعداللطبعیات تصوف لے لیتی ہے۔ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔دنیا میں معجزات ہوتے رہتے ہیں۔جس کی زندہ مثال آبِ زم زم کا کنواں ہے۔تصوف بھی ایک روحانی کرشمہ ہے۔جو انسانیت میں احترام،رواداری، ہمدردی،امن اور خوشحالی کا درس دیتا ہے۔تمام مذاہب کی عزت و توقیر کی بات کرتا ھے۔سرائیکی وسیب جس کو سرزمین اولیاء کرام بھی کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ شہرت ہر عام و خاص انسان کی روحانی آسودگی کا حصول ہے۔رشدوہدایت کے مراکز میں ملتان شریف، اوچ شریف، کوٹ مٹھن شریف، پاک پتن شریف، چشتیاں شریف، خانگاہ شریف کے ساتھ تونسہ شریف کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔آج بھی یہ روحانی ہسپتال غمزدہ،تکلیف زدہ انسانوں کے سماجی،ثقافتی، علمی اور نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ آرام وسکون کا باعث بھی ہیں۔یہ آستانے لوگوں کو ان کی مادری سرائیکی زبان میں احکام الٰہی اور شریعت محمدیہ کی تعلیمات سکھارہے ہیں۔سرائیکی علاقے میں ایک وقت میں سات دریا تھے۔اب پانچ دریاوں کا سنگم ہیڈ پنجند کے مقام پر سارے دریا ایک دریا سندھ کی شکل میں بحیرہ عرب کی طرف چلتے ہیں۔سابق سرائیکی ریاست بہاولپور کے مرکزی شہر بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے ایک مشہور عالمی روحانی مرکز اوچ شریف جس کو اوچ سید جلال کے ساتھ مدینہ السادات کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں زائرین اور عقیدت مند اللہ کے جلال ولی کا سرائیکی جلالی منتر(حق جلال ،یاجلال، حسینی لال اور جل توں جلال توں آئی بلا کوں ٹال توں )اپنی مشکل کو ٹالنے کے لیے اس کو پڑھتے ہیں اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔ مقامی عقیدت مندوں کے مطابق یہاں سوا لاکھ اولیاء کرام کے مزارات میں زیادہ تر گیلانی اور بخاری سادات کیں ہیں۔آل محمد صلی اللہ علیہ والہ والسلام کےجلال سید، جو اپنے دادا جان حضرت سید مولا علی ع کی حیدر کرار روح اور چہرہ انور حضرت امام حسین ع تھے۔ظلم،جبر،جھوٹ کے سامنے کلمہ حق کہنے والی جلالی ہستی حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ ازبکستان کے اہم شہر بخارا میں ولی کامل سید حضرت سید ابو الموید علی بن جعفر رحمتہ اللہ علیہ کے گھر 5 ذوالحجہ بروز جمعہ مبارک 595ھ بمطابق 1190ء کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ مادر ذات ولی کامل تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام “سید جلال الدین حیدر””” رکھا گیا۔بخارا شہر کی نسبت سے بخاری کہلائے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مشہور القابات و خطابات میں سرخ پوش بخاری، میر سرخ،شیر شاہ، سخی بادشاہ، شہنشاہ ولایت، شریف اللہ، عارف باللہ، مخدوم اعظم، عظیم اللہ، سلطان الفقراء، ابو برکات،میر بزرگ، جلال اللہ، جلال اکبر،جلال اعظم، ابو احمد،شیخ الاسلام، قطب کمال،حیدر کرار ثانی،جلال گنج،سید بزرگ، قطب الاقطاب اور میر جد سید بخاری شامل ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب 19 واسطوں سے حضرت عبدالمطلب ع سے جا ملتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسبت درج ذیل ہے “”سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری بن علی بن جعفر بن محمد بن محمود بن احمد بن عبداللہ بن علی بن جعفر بن علی بن محمد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین سجاد بن حسین بن علی بن ابو طالب بن عبدالمطلب ع”””
جس طرح خلیل اللہ نبی حضرت ابراہیم ع کے لیے آگ گلزار بن گئی، اسی طرح اللہ کے جلال کے لیے آگ گلستان کا روپ دھار گئی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے بہت ساری کرامتیں عطاء فرمائیں۔کتاب حدیقہ اسرار میں ذکر ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ چار سال کے تھے بخارا میں ایک جماعت کثیر جنازہ اٹھائے گزری،آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دریافت کیا تو پتہ چلا مردے کو دفن کرنے جارہے ہیں۔جذب کی حالت میں نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے فرمایا “قم باذن اللہ ” وہ مردہ حکم اللہ پاک فی الفور زندہ ہوگیا اور مزید چالیس سال زندہ بھی رہا۔اس کرامت کی خبر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بزرگوار والد حضرت سید ابو الموید بخاری رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئےاور فرمایا ” پردہ داری شرح چاک مکین” آپ رحمتہ اللہ علیہ شریعت کے پردہ کو چاک کرتے ہو،اس سے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام میں رخنہ آتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے احتراما بابا حضور رحمتہ اللہ علیہ کو جواباً فرمایا ” اگر قبلہ فوت نیاپد” بابا جان رحمتہ اللہ علیہ اگر آپ رحمتہ اللہ علیہ ناراض نہ ہوتے تو آئندہ کسی کو بھی اللہ پاک کے حکم سے بخارا شہر میں موت کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع اپنے والد حقیقی حضرت سید ابو الموید بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے دست بیعت تھے۔ان سے خرقہ خلافت کےساتھ جبہ مبارک، عصاء، کاسہ چوبی، تسبیح، مصلی کےساتھ دیگر نعمت ہائے باطنی و ظاہری عطاء ہوئیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کو پانچ سال کی عمر نبی آخری زماں حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی تو حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو مسکراتے ہوئے فرمایا” میرے بیٹے تم میری دستار کے وارث ہو۔” حضرت سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع نے والد بزرگوار حضرت سید ابو الموید بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے نجف اشرف عراق کے لیے سفر کی اجازت لی اور دادا جان حضرت سید مولا علی ع کے روضہ مبارکہ پر حاضری دے کر بے پناہ فیض حاصل کیا۔پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ روضہ رسول بابا بتول امام الانبیاء و خاتم الرسل حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کے روضہ انور مدینہ منورہ شریف حاضری دی اور فیوض وبرکات کے بے انتہا خزانے حاصل کیے۔بیت المقدس کا سفر باندھا۔صحابی رسول حضرت سید سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین کے مزارات کی مجاروی کی۔
حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی واپسی پر بخارا میں جلاد ہلاکو خان سے سامنا ہوا،اس نےغرور میں اللہ پاک کے حق جلال سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو آگ کے الاو میں کھڑا کیا۔مگر حکم ربی آگ ٹھنڈی رہی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ سرخ آگ میں سلامت رہے۔منگول جابر حکمران ہلاکو خان اللہ پاک کے جلال کی جلالی کا سامنا نہ کر پایا۔پھر ہلاکو خان منگول کا خاندان جو بعد میں مغل بنا،ان کی اولاد حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کے عملی روحانی تجلیات سے فیض یاب ہو کر برصغیر پاک و ھند میں اسلام کی تعلیمات پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔آج پھر جلاد اسرائیل جو معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے اس کو روکنے اوردنیا میں امن قائم کرنے کے لیےجلالِ آتش کے فلسفے کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔بادشاہ جلال الدین اکبر کا نام حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی نسبت سے رکھا گیا۔افغانستان کے شہر جلال آباد ،جھنگ اور جلال پور پیر والہ کے شہروں میں دین حق کی بنیاد رکھی۔گزٹ بہاولپور 1904ء کے مطابق منگول حکمران چنگیز خان بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روشن حیاتِ طیبہ اور کرامتوں کے ظہور سے دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔دنیا کے جس کونے میں گئے اپنے اخلاق حسنہ کی بدولت ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلم کو کلمہ حق پڑھا کر دئراہ اسلام میں داخل کیا۔ایک روایت کےمطابق آپ رحمتہ اللہ علیہ 55 زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔صوفی ہمیشہ لوگوں کو ان کی مادری زبانوں میں تبلیغ کرتاہے۔مادری زبان میں ابلاغ ایک فطری آسان ترین عمل ہے ۔ماں بولی سےانسان کے فہم وشعور کو فوری تقویت اور شعوری پختگی ملتی ہے۔سرائیکی زبان کے مہان صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دوست حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی منور خوبصورت سیرت بارے ایک جگہ بیان کرتےہیں ” میرا ایک دوست جو جلال اللہ اور عارف باللہ ہے،جو دن رات انسانیت کی روحانی اخلاقی اقدار کی تربیت کرتاہے۔ہر نماز باجماعت کعبہ شریف ادا کرتاہے ،اللہ پاک اس کی جگہ ہم شکل فرشتہ مقرر کردیتا ہے۔جو مخلوق خدا کو فیض دیتا رہتا ہے۔حقیقی اولیاء اللہ کے آستانے، خانقاہیں اور مزارات دراصل ہر عہد کے لوگوں کے لیے رشدوہدایت کے خوبصورت چشمے اور تصوف کے خزانے ہیں۔جوشخص جو نیت و مقصد لے کر جاتا ہے وہی مقصود پاتا ہے۔حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع تقریبا 35 سال بخارا شہر میں گزارے۔پندرہ سال کی عمر میں پندرہ ہزار علماء کرام کو روحانی علوم کی دولت سے مالا مال کیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ خوف خداوندی میں شادی نہ فرماتے شاید ان کی اولاد میں کوئی حکم الہی پورا نہ کر سکے۔پھر ایک دن دوران ذکر خدا کےفرشتے نے آواز دی ،آپ رحمتہ اللہ علیہ شادی کرلیں اللہ پاک غفور و رحیم ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ پہلی شادی بخارا میں حضرت بی بی فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا سے فرمائی۔دو بیٹے حضرت سید علی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سید جعفر رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔دونوں سیدزادے ملتان بھی آئے مگر جلد دوبارہ واپس بخارا لوٹ گئے۔دوسرا نکاح حضرت سید بدر الدین بکھروی رحمتہ اللہ علیہ جن کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ والسلام نے بشارت دی تھی کہ میرے بیٹے حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع سے اپنی بیٹی حضرت بی بی زہرہ بتول کا نکاح فرمائیں۔پھر تیسرا نکاح بھی بی بی زہرہ بتول کی وفات کے بعدچھوٹی بہن حضرت بی بی فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا سے فرمایا۔حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی تیسری بیوی سیدہ حضرت بی بی فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا کے بطن سے حضرت سید احمدسلطان کبیر رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ان سے مشہور صوفی بزرگ حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔جہنوں نے ہمیشہ اپنے مریدوں کو مقامی سرائیکی سندھی زبانوں میں تبلیغ کی۔حضرت سید ابو الموید بخاری رحمتہ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ بہاوالحق ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے پیر بھائی تھے۔انہوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ملتان میں سلوک کی مزید منازل طے کرنے اور برصغیر پاک و ھند میں سلسلہ سہروردیہ کے بانی حضرت خواجہ بہاوالحق ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے علوم باطنی و ظاہری حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت بہاالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے دست بیعت حاصل کیااور سلسلہ ِ سہروردیہ میں داخل ہوگئے۔تقریبا 30 سال تک حضرت خواجہ حضور بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سےبھی بہت فیضان پایا۔سرائیکی وسیب میں چار صوفی یاری بہت مشہور ہے۔ان میں حضرت خواجہ بہاوالحق ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت سید عثمان مروندی سخی لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع شامل ہیں۔ہر ایک صوفی نیک انسان نے اپنے آپنے علاقوں میں خوب اسلام کی اشاعت کی۔لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا۔آپس میں اتحاد، محبت،صبروتحمل،برداشت، ہمدردی، امن، احترام آدمیت کے جذباتِ کو اجاگر کیا۔ ان کے دلوں سے نفرت،ملاوٹ، انتہاپسندی، دہشت گردی، چوری ،ڈکیتی، جھوٹ جیسی خطرناک بیماریوں کو ختم کیا۔معاشرے کا مفید انسان بنایا۔
ایک دفعہ سندھ میں سفر کے دوران ایک شخص نے اشرفیوں کی تھیلی دی جو راستےسفرمیں کہیں چوری ہوگئی۔شخص نے منزل مقصود پر تھیلی مانگی،آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کے کرم سے کرامت دیکھائی کہ دریا میں ہاتھ مار کر تھیلی نکال کر سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں واپس کردی۔اس طرح ملتان سخت گرمی کے موسم میں بخارا کی ٹھنڈک کی خواہش کی کہ اچانک اللہ کی قدرت فورا زوردار بارش کے اولےبرسنے لگے۔ایک دفعہ ملتان میں ایک دعوت پر مدعو تھے کہ کھانے کی میز پر رکھے گئے کھانے کے بارے فرمایا کہ یہ کھانا حلال رزق سے نہیں کیوں کہ میرے دل نے فورا کھانے کی شدید خواہش کر رکھی ہے،بعد میں تحقیقات پر پتہ چلا کہ مالک کا کھانے میں پیش کیا گیا بکری کا گوشت واقعی حرام تھا،بکری کو چوری کرکے پکایا گیا تھا۔اللہ پاک کے ولی کو کشف ہوجاتاہے۔آج کے موجودہ حکمرانوں، قاضیوں،ملائوں ،گدی نشینوں اور مریدوں کوبھی رزق حرام کے بالکل قریب نہیں جاناچاہیے۔عام انسانوں کا معاشی استحصال کرنیوالوں کا سخت حساب ہونا چاہیے ۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ دعوت حق کے لیے آپنے مرشد کے حکم سے اوچ دیو راجہ سنگھ کے علاقے تشریف لائے، جادوگرنی اوچا رانی سے مناظرہ کیا۔اللہ پاک کے حکم سےجادو میں جکڑے کھوہ کو رام رام کی بجائے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا کلمہ حق جاری کرایا۔ظلم و بربریت کی حکومت ختم کی۔ جادوگرنی اوچا رانی ملکہ سمیت پورے علاقے کو دائرہ اسلام میں لائے۔مشہور حکمران راجپوت قبائل ڈاھر، وارن، چڈھر، سومرہ،سیال وغیرہ کےساتھ بلوچ قبائل لغاری، مزاری کوبھی مسلمان کیا۔اپنے روحانی فیض،عملی مثالی کردار سے پورے خطےمیں امن و محبت کی خوشبو پھیلا دی۔ آپ رحمتہ اللہ اپنے عہد کے بہترین ماہر سماجیات اور ماہر معاشیات تھے۔روہی چولستان جو آرکیالوجی سائٹس کے اعتبار سے ھڑپہ اور موہنجوداڑو کے درمیان گنویری والا شہر 6000 ہزار سال پرانی تہذیب وتمدن کا مالک جس کی وجہ شہرت قلعہ ڈیراور، پتن منارہ اور روحانی طور پر حضرت چنن پیر رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی فیض پایا۔دریائے ہاکڑہ کی پانی کی لہروں نے درگاہ حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ اوچ شریف کی زیارت کر کے واپس آپنے مقام آگئیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پوری حیات طیبہ حق سچ کا فلسفہ ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی کرامت سے لکڑی یا مٹی کا پیالہ بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ورد اللہ کیا کرتاتھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پوری مبارک زندگی عملی صفات سے بھری پڑی ہے۔ان کے ملفوظات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔روضہ رسول صلی اللہ علیہ والہ والسلام پر حاضری کے وقت سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سلام پیش کرتے ہوئے فرمایا؛” السلام علیک یا جدی!
روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام سے آواز آئی، ” وعلیک السلام یا ولدی قراتہ العین سراج کل امتی انت منی ومن اہل بیتی-
ترجمہ(وعلیکم السلام اے میری اولا،تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میری کل امت کے چراغ ہو،تم مجھ سے اور میری اہل بیت سے ہو۔)
اللہ پاک کے حقیقی جلال حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع اوچ شریف میں علم وادب کے فروغ کے لیے مدرسے کی بنیاد رکھی،جو بعد میں فیروزیہ یونیورسٹی سےمشہور ہوئی۔آج کے پُرآشوب عہد میں اُن کے فلسفے کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔فسادات،عدم برداشت،کرپشن،دہشت گردی اور نفرت کوختم کرنے کے لیے حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی تعلیمات کو پھر سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں اپنی پوری روشن حیات طیبہ کے مثالی کردار سے امن،احترام آدمیت اور خوشحالی کے در کھولے۔اللہ پاک کے کامل ولی19 جمادی الاول 690ھ بمطابق 20 مئی 1291ء میں اس دار فانی سے پردہ فرماگئے ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفے کو عام کرنے کے لیے مقامی ایم پی اے سردار ملک خالد محمود وارن پنجاب اسمبلی میں “سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع صوفی ازم اینڈ آرکیالوجی سائنس یونیورسٹی اوچ شریف “”کے قیام کے حوالے سے قرارداد جمع کراچکے ہیں جو ایجنڈا کا حصہ بن چکی ہے۔اسی طرح انجمن تاجران احمد پور شرقیہ کے جنرل سیکرٹری آفتاب خان ڈاھر احمد پور شرقیہ میں “الجلال کیڈٹ کالج احمد پور شرقیہ “” شکستہ خمیدہ روضہ مبارکہ کی جدید طرز کی فوری تعمیر نوکا مطالبہ بھی کرچکے ہیں۔ ان کے تمام ملفوظات کو کتابی شکل میں لایا جائےاورمثالی روشن حیاتِ طیبہ کو قومی سطح پر نصاب کا حصہ بھی بنایا جائے،سالانہ عرس مبارک کے موقع پر “”سرکاری چھٹی “” کا زائرین کادیرینہ مطالبے کو بھی پورا کیا جائے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سالانہ عرس 754 واں جو ہر سال اسلامی قمری مہینہ جمادی الاول 17،18،19 جبکہ اس ماہ دسمبر 2023ء کی تاریخ 2۔3۔4 بروز ہفتہ، اتوار، سوموار کے دن تقریبات کا آغاز ہونے جا رہاہے۔ہماری گورنمنٹ پنجاب سے اپیل ھے کہ اس شہنشاہ ولایت ہستی کے عرس پر بہترین سرکاری انتظامات اور زائرین کی سہولیات کا بندوبست کیا جائے۔اس سے سرائیکی خطے میں سیاحوں کو آثار قدیمہ اور تصوف کے فلسفے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔سائنس کی ترقی کےساتھ سماجی اخلاقیات کی ترویج کیلئے ہم سب کو بڑھ چڑھ اپنا کردار ذمہ داری سے نبھانا چاہیے۔
ولی ِ کامل کی نگاہ میں ایسی تاثیر
دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

پروفیسر الطاف ڈاہر

مزید پڑھیں