Contact Us

آئیے ۔۔۔۔ہم سب مل کر سوچیں

Mohsin

حروف محسن
بقاالمحسن

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور گزشتہ ایک صدی سے ملک کے پسماندہ ترین علاقے میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔ اس عظیم درسگاہ نے نامور علماء، استاد ،سیاستدان، بیوروکریٹس الغرض ہر شعبہ زندگی میں اعلیٰ پائے کے اشخاص کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جنہوں نے عملی زندگی میں ناصرف وطن عزیز میں اپنا نام روشن کیا بلکہ دنیا میں اپنا اور ملک پاکستان کے نام کو روشن حروف سے لکھوایا
جامعہ اسلامیہ اس وقت درجہ بندی میں جنوبی پنجاب کی نمبر ایک یونیورسٹی اور پاکستان کی پہلی دس جامعات میں شامل ہے

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور علاقے میں علم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے خاص کر پچھلے چار سالوں میں جامعہ نے شاندار کام کیا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی ہمارے بچوں کا مستقبل ہے بہاولپور کی اکانومی میں جامعہ کا بہت اہم رول ہے 67ہزار سے زائد طلباء بہاولپور کی اکانومی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
نہایت ہی افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج اس جامعہ کو لوگوں نے اپنی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے
گزشتہ کچھ عرصے سے شرپسند عناصر اسلامیہ یونیورسٹی میں اندرونی اور بیرونی طور پر اس کے خلاف سازش کا تانہ بانہ بننے میں مصروف تھے کہ اس کے خلاف کچھ کر پائیں لیکن کر نہیں پارہے تھے۔ وہ جامعہ کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانا چا رہے تھے لیکن ناکام ہو رہے تھے باآلخر کامیاب ہو گئے۔ سونے پہ سہاگا ہمارے سوشل میڈیا نےاس معاملے کی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے اتنی ہائپ پیدا کی کہ یہ معاملہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
ھمارا مقصد اس آرٹیکل کے ذریعے کسی ملزم یا مجرم کی سپورٹ کرنا نہیں بلکہ ھم یہ چاہتے ہیں کہ ھماری مادر علمی کا تشخص مجروح نہ ہو
آئیے اب روح افسردہ معاملے کا جائزہ لیتے ہیں

اس میں سب سے بڑا الزام ہے کہ 55 سو سے زائد ویڈیوز برآمد ہو گئیں بالکل غلط ہے کیونکہ اگر 5500 ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں اس بات کا سورس کیا ہے؟ کیا پولیس نے اس کا دعویٰ کیاہے اور اگر کیا ہے تو ایف آئی آر میں اس بات کا تذکرہ کیوں نہیں کیا ۔ کیا فرانزک رپورٹ وصول ہو گئ ہے کہ یہ ویڈیوز اصلی ہیں اور اگر ہم اس بات کو بالفرض درست مان لیں کہ وہ ویڈیوز اصلی ہیں تو یہ بات کون ثابت کرے گا کہ اس میں موجود خواتین اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ہی طالبات ہیں۔
نام نہاد مفکرین کا یہ کہنا کہ جامعہ میں ایک بہت بڑا گینگ آپریشنل ہے، جگہ جگہ منشیات فروشی ہو رہی، لڑکیاں سرعام غلط کاموں میں مشغول ہیں، نا صرف ایک غیر منطقی بلکہ غیر اخلاقی بات ہے۔ جامعہ میں 65 ہزار سے ذائد طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں جن میں کم از کم پچاس فی صد طالبات ہیں اور اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہری و دیہی علاقوں سے ہے۔ اس الزام میں کس قدر صداقت ہے اس پر میں کچھ نہ کہوں تو بہتر ہےکہ آپ خود جامعہ کا دورہ کر لیں آپ یہاں کے طلبہ و طالبات سے پوچھیں کہ کیا حالات ہیں۔ چھپ چھپا کہ یہ کام جامعہ اسلامیہ میں ہی نہیں پاکستان کی ہر جامعہ میں بلکہ پورے پاکستان کی ہر گلی کوچے میں ہوتا ہے
ہر طرف اس بات کا چرچا کیا جا رہا ہے کہ جامعہ میں طالبات کے 5500 کیس آئے ہیں یہ بات سفید جھوٹ ہے اور دوسرا ایسی بات کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جامعہ کی 30 ہزار سے زائد طالبات میں سے اگر 5500 اس کام میں ملوث ہیں تو یہ الزام جامعہ پر ہے یا جنوبی پنجاب کے والدین کی تربیت پر؟۔ اگر اتنی بڑی تعداد اس کام میں ملوث ہے تو کیا جنوبی پنچاب میں اخلاقی قدریں پامال ہو چکی ہیں۔

کچھ لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ خواتین سے ہراسمٹ کی جا رہی تھی ہزاروں خواتین اس ظلم و زیادتی کا شکار تھیں۔
غضب خدا کا، جتنے منہ اتنی باتیں، ویوز کے چکر میں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم کیا بول رہے ہیں کیا دیکھا رہے ہیں۔
آئیے ھم سب مل کر یہ سوچیں کہ کیا ہم سب اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں۔
الغرض ہر کسی کے اپنے مقاصد ہیں لیکن اگر کوئی نہیں سوچ رہا تو وہ جامعہ کا نہیں سوچ رہا ، نہیں سوچ رہا تو وہ ماؤں، بہنوں بیٹیوں، بھائیوں اور باپوں کے جذبات کا نہیں سوچ رہا۔ نہیں سوچ رہا تو جنوبی پنجاب کا نہیں سوچ رہا۔ نہیں سوچ رہا تو پاکستان کا نہیں سوچ رہا۔

اگر یہ نام نہاد مفکرین، نقاد یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ نہ صرف جامعہ اسلامیہ بلکہ پاکستان کی تمام جامعات کو مجرم قرار دینا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو ان کے اس فیصلے سے ہٹا نہیں نہیں سکتی لیکن پھر بھی میری ان سے استدعا ہے جب کسی باپ کے کانوں تک آپ کی آواز پہنچے گی تو کیا وہ اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھیجے گا؟ کیا جنوبی پنجاب کے تعلیم یافتہ ہونے کا خواب صرف ایک خواب ہی رہ جائے گا؟
سوچئے اگر کوئی ان جرائم میں ملوث نہ ہوا اور آپ نے اس کو ملوث سمجھے رکھا تو کیا یہ بہتان نہ ہو گا؟ کیا اللہ سے آپ کو معافی مل جائے گی؟
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس تمام معاملے کے لیے یہ وقت ہی کیوں چنا گیا جب یونیورسٹی میں داخلہ مہم شروع ہونے والی ہے ۔ کیا یہ ایک سازش تو نہیں کیونکہ اس یونیورسٹی میں گزشتہ چار سال میں طلباء کی تعداد میں ھر سال خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور تعداد 13000 سے بڑھ کر 65000 سے زائد ہوئ ہے اور انرولمنٹ کے اعتبار سے وطن عزیز کی سب سے بڑی یونیورسٹی بن چکی ہے
دوسری طرف پولیس یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہم نے یونیورسٹی کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کےلئے تمام تر کاروائی کی ہے تو میں ان کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس لعنت سے محفوظ رہ سکیں
حکومت پنجاب نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک صوبائی سیکرٹری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے اور اہلیان بہاولپور اس کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اپنی رپورٹ مرتب کرے تاکہ اس کے حقیقی مجرم اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں

جنوبی پنجاب کے عوام بالخصوص اور پاکستان کی عوام بالعموم چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس پنجاب سے بھرپور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج صاحب پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں تاکہ شفاف طریقے سے اس معاملے کی ہر پہلو سے تفتیش ہو سکے اور اس میں جو ملوث عناصر ہیں انہیں قرار واقعی، مثالی اور سر عام سزا دے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے