Advertisements

عظمت کردار کا امیں!پرنس بہاول عباس خان عباسی

Crown Prince Bahawal Abbas Khan Abbasi
پرنس بہاول عباس خان عباسی
Advertisements

تحریر:حمیداللہ خان عزیز

‏میں ایک سوچ ہوں ذہنوں میں گھر بناؤں گا
میں ایک دور ہوں صدیوں پہ پھیل جاؤں گا

صاحبو! 8-فروری قریب ھے۔۔امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی صاحب کے صاحبزادے پرنس بہاول عباس خان عباسی حلقہ این اے 166 (احمد پور شرقیہ)سے ایم این اے کے امیدوار ھیں۔ان کا انتخابی نشان حقہ ھے۔حالات یہی بتا رھے ھیں کہ اس نوجوان شخصیت کا بطور ایم این اےانتخاب شہر کے لئے نیک شگون ثابت ھو گا۔ان شاءاللہ۔
پرنس بہاول عباس خان عباسی،
والئی ریاست بہاول پور نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی مرحوم کے پڑپوتے،سابق گورنر پنجاب ووفاقی وزیر نواب عباس خان عباسی مرحوم کے پوتے اور درویش صفت ھستی سابق ایم این اےجناب نواب صلاح الدین عباسی کےاکلوتے صاحب زادے ھیں۔۔
ایک دور تھا جب احمد پور شرقیہ کے ریلوے اسٹیشن سے نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی مرحوم کا قافلہ صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب میں جانے کے لئے احمد پور شرقیہ شہر میں داخل ھوتا تو لوگ دیوانہ واراپنی اس شفیق ھستی کا استقبال کرتے۔۔واقعہ یہ ھے کہ لوگ نواب صاحب سے دور رہ نہیں سکتے تھے۔کیوں کہ نواب صاحب نے اپنی رعایا سے دلجوئی کی انتہا کر رکھی تھی۔اس لئے بدلے میں عوام بھی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے تھے۔۔
۔آج بھی ”صادق“کے نام پر لوگ تڑپ اٹھتے ھیں۔پرانے بزرگوں کے سنائے ھوئے واقعات جب یادآتے ھیں تو ایک نیک دل حاکم کی شخصیت ابھر ابھر کر سامنے آنے لگتی ھے۔۔ استاد محترم جناب احسان احمد سحر صاحب نے کسی جگہ بالکل ٹھیک لکھاھے کہ ”نواب صلاح الدین عباسی اپنے عظیم دادا کا پرتو ھیں“۔۔
اس عالی مرتبت خاندان کی سیاست ھمیشہ شرافت کے دائرے میں سفر کرتی رھی۔۔یہی وجہ ھے کہ سابقہ ریاست بہاول پور کی نئی یا پرانی کوئی بھی تاریخ اٹھالیں،تمام مورخین اس بات پر متفق ھیں کہ امیرآف بہاول پور نواب بہاول خان اول سے لے کر موجودہ امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی تک سب امراء وضع دار، نیک سیرت،باوفااور عظمت پرشکوہ کے مالک رھے ھیں۔اپنی ریاستی عوام سے انہیں اپنی اولاد کی طرح الفت تھی اور ھے اور آئندہ بھی رھے گی۔۔جب کہ اس خانوادہ کی خطے میں سب سے زیادہ زمینیں اور جائیدادیں ھیں۔
یہ لوگ دینا بھر میں اپنا اثر رسوخ سب سے زیادہ رکھتے ھیں۔مگر ذات کا سادہ پن دیکھیں کہ عام سیاستدانوں کی طرح گردن میں سریہ نہیں ۔۔ جب بھی ملیں تو نوابی خوبو کے باوجود عوامی انداز نمایاں نظر آئے گا۔ ۔اس کا اندازہ آپ کو ایک واقعہ سے ہو گا۔۔سابقہ دور کے الیکشن کی بات ہے،ڈیرہ نواب صاحب میں ایک بڑا سیاسی جلسہ منعقد ہوا،جو قومی الیکشن کے سلسلے میں تھا۔۔بہاول عباس خان عباسی پہلی دفعہ الیکشن میں متعارف ہوئے،میں بھی شریکِ جلسہ تھا۔اس جلسے کی مشاھداتی چیزیں ملاحظہ فرمائیں کہ اہل علاقہ کی اس خانوادہ سے محبت کس قدر ہے۔
نواب صاحب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے یوں لگتا تھا کہ پورا ڈیرہ نواب امڈ آیا ھے۔۔رات ساڑھے گیارہ بجے امیرآف بہاول پور کو دعوت خطاب دی گئی۔خطاب تو ان کا چند منٹوں پے مشتمل تھا لیکن اس کی اثر انگیزی سے صاف معلوم ھو رھا تھا کہ وہ دلوں کی گہرائی تک بات اتارنا جانتے ھیں۔اور اپنا مافی الضمیر بڑے انوکھے انداز میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے ھیں۔چہرے پے جمال اور گفتگو میں جلال۔۔یوں لگتا تھا جیسے تاجدار ریاست بہاول پور سر صادق سائیں مرحوم بول رھے ھیں۔تقریر کے شروع میں سلام کے بعد انہوں نے روایتی انداز میں کہا:
”جیو میرے لال“
اس جملے کے ادا کرتے ھی تمام چہرے تمتما اٹھے۔۔”جئے صادق “
”جئے صادق“کے نعروں سے مجمع گونج اٹھا۔۔
سرصادق محمد خان عباسی تاریخ کی ایک زندہ وجاوید ھستی تھی۔جوبلاشبہ اپنے قومی وملی کارھائے نمایاں کی وجہ سے محسن پاکستان کہلائے۔۔
نواب صاحب مرحوم کے نام کے نعرے سن کر امیر آف بہاول پور
نواب صلاح الدین عباسی صاحب کی آنکھیں آنسوٶں سے بھر گئیں۔۔
پھروہ اپنی بھرائی ھوئی آواز میں بولے :
”ابا!میں اسی دھرتی میں دفن ھوں گا“!
اس جملے نے تو گویا زندہ دل ریاستیوں کو رولا دیا۔۔لوگ تڑپ اٹھے۔۔
ایک طرف بوڑھے بزرگوں کی نمناک آنکھیں نظر آئیں تو دوسری طرف دعائیہ الفاظ سے مجمع گونج اٹھا۔۔
اس دوران نواب صاحب کی کھنک دار آوازسنائی دی۔۔۔
”میرے ابا“۔۔۔۔۔۔!
آواز میں اس قدر چاشنی کہ لوگ اٹھ کھڑے ھوگئے اور سٹیج کی طرف بڑھنے لگے۔ان کی آواز پر سامعین کی ایک ھی پکار تھی۔وہ یہ کہ:
”سائیں ساکوں چھوڑ تے نہ ونجو۔۔۔!“
نواب صاحب پھر یوں گویا ھوئے۔۔۔:
”جب میرے بزرگ نہ رھے تو میں بھی نہیں رھوں گا۔“
پھر فرمایا:
” میرے ابا۔۔۔میرا بیٹا بہاول آپ کی خدمت کرے گا(اللہ تعالی اس نوجوان کو شریر لوگوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔آمین)
انہوں نے کہا:
”آج جو لوگ میرے مقابلے پر اتر آئے ھیں۔۔انہیں شاید بھول گیا ھے کہ میں نے ھی انہیں منتخب کرا کے قومی اسمبلی کے فلور پر پہنچایا تھا۔مگر افسوس وہ حق نمائندگی سے قاصر رھے۔۔اب قوم بہاول عباس کا ساتھ دے۔۔یہ تمام طبقات کی نمائندگی کرے گا اور آپ کے حقوق کی بھی بھر پور حفاظت کرے گا۔۔“
انہوں نے مزید کہا کہ:
”میں صوبہ بہاول پور بناٶں گا۔میں آپ کے حقوق کو پنجاب کے پیٹ میں نہیں جانے دوں گا۔۔ انہوں نے کہا:
”ھمیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرائیں ھم قومی اسمبلی میں اس خطے کی توانا آواز بن کر ابھریں گے۔“
انہوں نے کہا کہ:
”مجھے کیا پڑی ھے کہ حالتِ علالت میں شدید موسمی حالات کے تھپیڑے برداشت کروں؟۔۔۔لیکن میں آپ کو دکھوں اور تکلیف میں دیکھ کر سکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔“میں اپنے اجداد کے انداز سیاست کو نہیں چھوڑ سکتا۔میں اور میرا خاندان زندگی کی آخری سانسوں تک آپ کے حقوق کی جنگ لڑتے رھیں گے۔“
یہ تھے چند الفاظ نواب صاحب کی تقریر کے۔۔جن سے حصول منزل کا تعین باآسانی ھو رھاہے۔۔۔۔آج پھر وہی حالات ہیں،بہاول عباس خان عباسی ایم این اے کے امیدوار ہیں۔ نواب صاحب کے ان الفاظ کو آج کے سیاسی منظر پر محمول سمجھیں۔۔۔۔
صاحبو! اللہ تعالی نواب صاحب کی زندگی دراز فرمائے۔۔ابھی ھمیں ان کی بہت ضرورت ھے۔وہ سیاسی میدان میں اس خطے کی اتنی قد آور شخصیت ھیں کہ ان کے سامنے دیگر تمام سیاسی شخصیتیں کوتاہ قد دکھائی دیتی ھیں۔ان کے دم قدم سے سابق ریاست بہاول پور کا چپہ چپہ دیگر علاقوں اور صوبوں کی نسبت محفوظ ھے۔
نواب صاحب نے علالت کے باوجود لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے اپنے ولی عہد پرنس بہاول عباس خان عباسی کو اپنا سیاسی جانشین اپنی زندگی میں ھی نامزدکر دیاھے اور انہیں عوامی حقوق اور عوامی مفادات کےتحفظ کےلئے ایم این اےکےامیدوار کے طور پر کھڑا کیا ھے۔یہ ھمارے لئے بہترین موقع ھے کہ بائیس برس بعد نواب صاحب پھر الیکشن میں آئے ھیں ۔ان سےزیادہ ھماری اولاد جان ومال کا محافظ کوئی نہیں ھو سکتا۔۔8 فروری کو ان کےانتخابی نشان حقہ پر مہر لگا کر ھم نے اقتدار دوبارہ انھی لوگوں کے سپرد کر دینا ھے جنہوں نے پہلے بھی ھم پر ڈھائی سو سال تک حکمرانی کی اور عدل وانصاف کی بے نظیر مثالیں قائم کیں۔اللہ کی مدد شامل حال رھی تو گزشتہ بیس برس کے دوران جن سیاسی بازی گروں نے ھمارے ساتھ زیادتیاں کیں،ان کا ازالہ بھی ھو گا۔۔نواب صلاح الدین عباسی صادق گڑھ پیلس میں موجود ھیں اور آنے والے حضرات سے ملاقاتیں کر رھے ھیں۔۔لوگ عقیدت سے ان کے ھاتھ چومنے لگ جاتے ھیں۔لوگوں کی عقیدت دیکھ کر وہ کبھی ھنس پڑتے ھیں اور کبھی رو پڑتے ھیں۔ان کو رونا اس بات پر آتا ھے کہ عوام کے حقوق کا ضامن بن کر آنے والے سب کچھ لوٹ کر لے گئے اور ھنستے اس لئے ھیں کہ انہیں اب یقین ھو چلا ھے کہ اللہ کرے گا 8فروری کے بعد اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے ھاتھ میں ھو گا۔
یاد رکھیں:آگہی اور عظیم تبدیلی کے زخم ھمیشہ تازہ رھتے اور ایک نئی زندگی کا احساس دلاتے رھتے ھیں۔؎

Advertisements

نظر لگے نہ کہیں ان کے دست وبازو کو
یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ھیں

اللہ تعالی کی مہربانی سے نواب صاحب کی زندگی میں کسی میں اتنی جرات ھی نہیں کہ وہ صادق کی دھرتی کے باسیوں بار بار ظلم وزیادتی کی داستان دوہرا سکے۔
تاریخ گواہ ھے امیر آف بہاول پور اس دھرتی کے باسیوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ھیں۔۔آج سے کم وبیش انیس برس پہلے جب نواب صلاح الدین عباسی آخری مرتبہ ایم این بنے تھے تو احمد پور شرقیہ کی اس قدر مخدوش حالت نہ تھی۔۔وہ شہر ودیہاتی علاقوں کو خوشحال چھوڑ کر گئےتھے۔جو لوگ ان کے بعد اقتدار میں رھے۔۔پسماندگی کے اصل ذمہ دار وھی ھیں۔۔کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔۔آپ سب ان کو بخوبی جانتےھیں۔
2000ءسے لے کر 2018ء تک چار الیکشن ھوئے۔۔۔سچ یہی ھے کہ منتخب سیاسی لوگوں نے حق نمائندگی ادا نہیں کیا۔
اب کی بار بھی امیر آف بہاول پور سے رہا نہ گیا۔۔۔وہ اس خطے کے لوگوں کو خوار ھوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔وہ صادق کی دھرتی کے باسیوں کے ساتھ ناانصافی اور استحصال پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔”وعدہ صادق“ کو ایفا کرنے کے لئے انہوں نے اپنے اکلوتے جانشین پرنس بہاول عباس خان عباسی کو میدان میں اتارا ھے۔۔ھم نے8فروری کو اس خطے کے باسی ھونے کاحق ادا کرنا ھے۔۔نواب صاحب کو یقین دلانا ھے کہ وہ صادق کے احسانات کو بھولے نہیں۔جس نے بطور مسلمان ریاست ھونے کا خیال کرتے ھوئے بجائے ھندوستان کے، پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق کیا۔۔اپنا تاج وتخت ریاست پاکستان پرقربان کر دیا۔۔ایک لمحے کے لئے سوچیں اگر وہ اس ریاست کا الحاق ھندوستان سے کرتے تو آج احمد پور شرقیہ، ڈیرہ نواب صاحب،محراب والا، کلاب،سکھیل،شیخ روشن اوچ شریف ،بہاول پور،ودیگر علاقوں میں اکثریت ھندٶوں کی ھوتی اور گلی کوچوں سے”رام رام“کی آواز آ رھی ھوتی۔۔خاندان عباسیہ کے اس احسان کو ھمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے ھمیں مسلمان ملک ”پاکستان“ کےحوالے کیا۔جس قدر آزادی ھمیں اس ملک میں حاصل ھے وہ کسی اور ملک میں عوام کو حاصل نہیں ھے۔۔اور یہ آزادی خاص طور پر ھمیں نواب صاحب کی وجہ سے ملی ھے۔۔اگر انہیں ذاتی مفاد چاھئے ھوتا تو وہ ھندوستان کے ساتھ الحاق کر لیتے۔۔جب کہ وھاں انہیں پروٹوکولز کی شکل میں ملنے والی مراعات بھی پاکستان سےکہیں زیادہ تھیں۔۔۔پھر قیام پاکستان کے وقت انہوں نے جو تعاون کیا ۔۔۔اسے تو مورخ سنہری حروف سے لکھے گا۔۔۔نواب سر صادق نے تعاون کی انتہاء کردی۔۔ پاکستان نیا ملک تھا۔۔۔پیسے کی ازحد کمی تھی۔ہر طرح بھوک ناچ رھی تھی۔۔نواب صاحب نے قائد اعظم مرحوم کو مملکت کا نظام چلانے کے لئے کروڑوں روپے دئیے۔گاڑیاں دیں ۔۔۔اپنے اثاثے نو زائدہ پاکستان کے حوالے کر دئیے۔؎

ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما

صاحبو

تاریخ اور خدمت۔۔دونوں چیزیں کبھی نہیں مرتیں۔۔زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتیں بلکہ ان کی نشانیاں بھی سنبھال کر رکھتی ھیں۔نواب صلاح الدین عباسی ان نیک اطوار عظیم اسلاف کی نشانی ھیں۔۔آپ ان سے جا کر ملیں تو پتا چلتا ھے کہ عظمت انسان کیا ھوتی ھے۔خاندانی وقار کی بلندی خود بخود آپ پر آشکار ھونا شروع ھو جائے گی۔ نواب صاحب اپنے سابقہ ادوار میں ھمیشہ اپنے علاقے کے لئے ہر قسم کی ترقی کے لئے کوشاں رھے۔۔۔سچ یہی ھے کہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب لکھی جا سکتی ھے کہ انہوں نے کس کس محاذ پر کون کون سی عوامی فلاح کی جنگ لڑی۔۔۔عوام کا مقدمہ لڑتے لڑتے ان کے سیاہ بالوں پر سفیدی نے قبضہ کرلیا۔ان کا مضبوط جسم نحیف ھو گیا۔بلکہ ان دنوں وہ اچھے خاصے بیمار بھی ہیں۔بہاول عباسی کی جیت انہیں نئی زندگی عطا کرے گی،اس لئے اھل علاقہ سے دردمندانہ درخواست ھے کہ 8فروری 2024ءکو صبح کی نماز پڑھ کر خصوصی یومیہ اذکار کریں اور اپنے علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنے دامن کو اپنے رب کے دربار میں پھیلا دیں۔۔نواب صاحب کی صحت مندی اور کامیابی کے لئے دعائیں کریں ۔ارشاد باری تعالی ھے:۔”ادعونی استجب لکم۔“
”جب مجھے (خالص ھو کر پکارا جاتا ھے تو میں ان نیک دعاٶں کو قبول کرتا ھوں۔“)
اسی طرح تمام ووٹرز عزیز واقارب احباب وخویش کو تحریک دیں کہ پہلی فرصت میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔۔نواب صاحب کی پرچی”سبز رنگ“کی ھو گی،اس پر”حقہ” کا واضح نشان بنا ھو گا۔اس پر مہر لگائیں اور لمبائی کے رخ پرچی کو لپیٹ کر باکس میں ڈالیں، مخالفین اپنی تمام ریشہ دوانیوں کے ساتھ مغلوب رہیں گے۔نصرمن اللہ وفتح قریب۔
اللہ تعالی کی مدد ونصرت پر ھمیں کامل یقین ھے۔کامیابی بہاول عباس خان عباسی کے قدم چومے گی۔۔اور ھمارا علاقہ ایک مرتبہ پھر امن واخوت کا گہوارہ بن جائے گا۔تمام پرخلوص احباب عالی مقام ، راقم خاک سار کو بھی اپنی دعاٶں میں یاد رکھیں۔نواب صاحب کی کامیابی کے لئے خدمت کے جذبہ سے کافی محنت کی ھے۔۔اللہ کرے یہ تمام کوششیں رنگ لائیں۔

ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحر سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ ہی سہی، ہم نے صدا دینی ہے