Contact Us

راز اور چور

Riaz ul Haq

تحریر: ریاض الحق بھٹی

اب تو ہماری کہانی بس اتنی ہی رہ گئی ہے کہ رات گئی اور بات گئی۔ہم ہر روز نیا زخم کھاتے ہیں، پھر مرحم لگاتے ہیں، خود کو تسلی دیتے ہیں، رات گزرنے کے بعد اگلے دن پھر ایک اور زخم اُٹھا لیتے ہیں،نہ زخم بھرتا ہے اور نہ علاج ہوتا ہے۔ڈر، خوف، آزمائش، دھماکے اور مہنگائی ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ہم لاقانونیت کے عادی ہو چکے ہیں مگر وہی عطار کے لڑکے والی بات ہے۔ہمیں دنیا بتا رہی ہے کہ اگر ہماری اشرافیہ کو دی جانے والی عنایات بند کر دی جائیں تو صرف دو سالوں میں ہی ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔جی ہاں! محض دو سالوں میں 35ارب ڈالرز کی بچت سے ہمارے پاؤں میں پڑی آئی ایم ایف کی بیڑیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھُل جائیں گی اور ہمارے بدن پر لپٹی غلامی کی اچکن بھی اُتر جائے گی۔سادہ سی بات ہے مگر ہم تو ٹھہرے اجنبی، اتنی مناجاتوں کے بعد…..۔

ایک دفعہ ابنِ انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی کے استاد سے ملنے گئے۔ ملاقات کے اختتام پر وہ استاد ابنِ انشاء کو الوداع کرنے کے لئے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا۔ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے۔ اس دوران ابنِ انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلبہ اُچھل اُچھل کر گزر رہے ہیں۔ ابنِ انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم! ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر کیوں گزر رہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ چونکہ ہمارا سایہ پچھلی جانب ہے اس لئے کوئی بھی طالب علم یہ نہیں چاہتا کہ ُاس کے پاؤں اس کے استاد کے سایہ پر بھی پڑیں۔ اس لئے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر گزر رہا ہے……یہ ہے قوموں کی ترقی کا راز۔

ایک عجیب ترین چوری کا واقعہ بھی سُن لیجئے کہ ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر مہنگا لباس زیبِ تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حُلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں ایک سُنار کی دکان کے اندر چلا گیا۔سُنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا کہ جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، توسُنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دُکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں۔اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوااورسُنار نے آگے بڑھ کر شیخ صاحب کا استقبال کیا۔ شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا: آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کہ کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔سُنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت اُسی چور کی ہی ہم پیشہ تھی، دُکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ صاحب کے پاس جا کر اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔سُنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور وہ معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ! لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔ لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سُنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمہارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے کثرتِ علم، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے اورلوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔سُنار نے شیخ صاحب سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ؛ شیخ صاحب! میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لیے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔ شیخ نے سنار سے کہا: کوئی بات نہیں انسان خطا کا پُتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص ہی خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن تک اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے کرآئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔ جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دُکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔ اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے اور سُنار رو دھو کر اپنا نقصان بھی بھول چکا تھا تو چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سُنار کی دُکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔سُنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔ ایک پولیس والا سُنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کہ کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سُنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دُکان لوٹ لی تھی۔پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دُکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دُکاندار کو دیا۔پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سُنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سُنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سُنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے ان دوستوں کی مدد سے دوبارہ دُکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔ آج ہمارے ملک کا بھی بالکل یہی حال ہے، ہر چار سال بعد چور بھیس بدل کر ہمارے پاس آتا ہے اور چکنی چپڑی باتوں سے ملک اور عوام کا سامان لوٹ کر پتلی گلی سے نکل لیتا ہے…ہر دفعہ ایک نیا منظر، نیا لباس، نیا بہروپ، نئی شکل اور نیا حربہ جس سے عوام دھوکہ کھا کر اعتبار کرتی ہے، اور آخر میں محافظوں سمیت نکلتا وہی چورہے۔