کوئلہ….ایندھن اور کندن

VC visit islamabad and talk to media

تحریر: ریاض الحق بھٹی

اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ہمارے محبوب، ڈاکٹر اطہر محبوب کو جنہوں نے قوم کی آنکھوں میں پڑے غفلت و نادانی کے سرمے کو ایک بار پھر سے دھو ڈالا ہے کہ کوئلے سے بجلی، پٹرول، ڈیزل اور گیس تک سب ہی کچھ بنایا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لئے ہمیں کسی بیرونی امداد یا قرض کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے اپنے صوبہ سندھ کے علاقہ تھر میں پایا جانے والا کوئلہ کیمیائی خوبیوں کی بنیاد پر اس درجے طاقتور اور وافر مقدار میں موجود ہے جو آئندہ کئی صدیوں تک ہماری انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔

لیکن؛ بات یہاں پر آ کر رک جائے گی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ہم صدیوں کے خوابیدہ لوگ کہ جنہیں حکمرانوں نے بڑی مہارت سے فریب کی لوریاں سنا سنا کر مدہوش کیے رکھا ہے اور ہم بھی ان کی اس محبت کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیتے۔بس یوں سمجھیں کہ اس قومی ڈرامے کا یہی ڈراپ سین ہے اور یہی داستانِ الفت۔

ڈاکٹر اطہر محبوب کمال درجے کے محنتی و لائق سائنسدان ہیں جنہوں نے دی اسلامیہ یونیورسٹی کی مسند رئیس پر بیٹھ کر انتہائی قلیل مدت میں کئی بے مثال کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ آج یہ جامعہ ملک کے طول و عرض میں ایک ایسا منفرد مقام حاصل کر چکی ہے کہ جس کی مثال ہماری قدیم درسگاہیں بھی نہیں دے سکتیں۔بہرکیف ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی وطن سے بے لوث محبت کرنے والا اور قوم کی بے غرض خدمت کرنے والا حکمران ہی جنابِ اطہر محبوب کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر پائے گا۔ اس طیرہ شبیہ کے باوجود امید کے جگنو اب بھی روشن ہیں اور ہم رب کی رحمت سے مایوس نہیں کہ وقت ضرور بدلے گا۔

ہماری سادہ دلی کو دیکھ کر مدت پہلے سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں، ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں، حق کے لئے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں، غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کر چپ رہیں۔ان ہی کے ایک ہم مزاج وکٹر ہیوگونے کہا تھا کہ میں جب چودہ برس کا تھا تو میں نے کھانے کے لئے روٹی کا ایک ٹکڑا چرایا جس کی وجہ سے مجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا اور چھ مہینے تک مجھے مفت روٹی دیتے رہے،یہی انسانوں کی عدالت ہے۔
بس یوں ہی چلتے چلتے کسی نامعلوم شاعر کا ایک خوبصورت قطعہ آپ کی نظر

میں تیرے ذکر کے زنداں میں مقید ہو کر
ایک  دیوانِ سخن  ایسا  قلمبند  کروں
جو سنے اس میں تیری دیدکی خواہش جاگے
جو پڑھے تیری اسیری کا بہانہ ڈھونڈے
اور یہ بھی برسبیل تذکرہ ہے کہ:
میں اتنا نرم طبیعت کہ یہ بھی چاہتا ہوں
جو آستین میں رہتا ہے وہ بھی پل جائے

بات کچھ اور آگے بڑھتی ہے کہ چین کے سائنسدان چاند سے ہیلیم گیس لانے کے پروجیکٹ پردن رات کام کر رہے ہیں کیونکہ توانائی کے حصول کے لیے وہ سورج کی طرز پر زمین میں ایک محدود اور کنٹرولڈ فیوژن ری ایکٹر بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے ہیلیم گیس درکار ہے جو زمین سے قریب صرف چاند پر وافر مقدار میں موجود ہے۔جس دن یہ لوگ ہیلیم گیس لانے میں کامیاب ہو گئے اسی دن چین ہمیشہ کے لیے پیٹرول اور گیس کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گا اور پھر بلب سے جہاز تک ہر چیز فیوژن توانائی سے چلے گی۔دوسری طرف جاپان کے سائنسدان چاند کے خطِ استواء پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے جارہے ہیں جو شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی۔یہ بجلی لیزر لائٹ کی طرح ایک شعاع کی صورت میں زمین پر بھیجی جائے گی یہ بیلٹ لونر رنگ کہلائے گی۔یہ بیلٹ جاپان کو روزانہ تیرہ ہزار ٹیرا واٹ بجلی مہیا کرے گی جو امریکہ جیسے تین ملک چلانے کے لیے کافی ہو گی۔ماحولیاتی آلودگی سے پاک یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ہو گی۔ ہم بھی ایسے کئی چراغ روشن کر سکتے ہیں اگر قوم یکجا ہو کر آگے بڑھے اور اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض سے بھی آگاہ ہو۔

آپ سب جانتے ہیں کہ قدرت نے جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو انمول قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے مثلاً تھر کے کوئلے کو ہی دیکھ لیجئے۔ظاہری طور پر یہ کوئلہ ہے مگردرحقیقت ایندھن و توانائی کا بہت بڑا خزانہ۔ اگر کہیں سے اطہر و محبوب مل کر اسے مصرف میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو ارضِ پاک کو کندن بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

Riaz ul Haq Bhatti
ریاض الحق بھٹی