Contact Us

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس

اداریہ: جمعةالمبارک،25,فروری 2022ء

وزیر اعظم عمران خان بدھ 23 فروری کو دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو(روس) گئے۔وہ گزشتہ دو دھائیوں کے بعد پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں،جو روس کا دورہ کر رہے ہیں۔وزیر اعظم کے دورہ روس کے حوالے سے پاکستان میں ان پر تنقید کے نشتر بھی برسائے جا رہے ہیں،جن میں کہا جا رہا ہے جب یوکرین کے مسئلہ پر مغربی ممالک اور روس کے مابین تناو جاری ہے،وزیر اعظم کو روس کا دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ وطن عزیز کے معاشی مفادات امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک سے وابستہ ہیں نہ کہ روس اور چین سے۔

وزیر اعظم کے دورہ روس سے اختلاف کرنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے یو کرین پر حملہ کے نتیجے میں روس پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، لہذا روس سے ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔الٹا امریکہ کے زیر اثر آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان پر سخت شرائط عاید کریں گے اور ایف ٹی ایف کی تلوار بھی پاکستان کے سر پر لٹکتی رہے گی۔

قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دو سپر طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کی جانب سے دورے کی دعوت دی گئی تھی مگر لیاقت علی خان نے سوویت یونین کی دعوت قبول نہیں کی اور واشنگٹن چلے گئے اس کے نتیجے میں ہمارا ازلی دشمن بھارت سوویت یونین کے قریب ہو گیاجب کہ پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو گیا۔سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان کو سیٹو اور سینٹو کی رکنیت ملی اور یوں وہ براہ راست امریکہ کا اتحادی بن گیا۔اس زمانے میں پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی،چنانچہ جب سوویت یونین نے بڈ بیر کے امریکی فوجی اڈے سے جاسوسی کے لئے پروازکرنے والے امریکی یوٹو طیارے کو مار گرایا تو سوویت یونین کے صدر خروشیف نے پاکستان کو دھمکی دی اور کہا کہ سوویت یونین اس امریکی اڈے کو نشانہ بنائے گا۔

سوویت یونین کی بھارت سے قربت کے باعث ماضی میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔سوویت یونین نے سقوط مشرقی پاکستان میں پاکستان میں بھارت کی کھلم کھلا مدد کی،جب کہ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا خلیج بنگال نہ آیا اور یوں پاکستان دو لخت ہو گیا۔

سوویت یونین نے جب 1989ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ کے اشارے پر سابقہ صدر جنرل ضیاءالحق نے”افغان جہاد” میں طالبان کی معاونت کی۔افغان جنگ میں سالہا سال تک ملوث رہنے کے نتیجہ میں سوویت یونین تحلیل ہو گیا اور کئی ریاستیں آزاد ہو گئیں۔سوویت یونین کا نیا نام روس ہو گیا۔یہ سب کچھ سوویت یونین کی معاشی بربادی کے باعث ہوا۔

آج کل نریندر مودی کی بھارتی حکومت امریکی بلاک میں شامل ہو چکی ہے اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کو محدود رکھنے کے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔روسی صدر پیوٹن اپنے دیرینہ دوست بھارت کی امریکہ نواز پالیسی سے بخوبی آگاہ ہیں،اس لئے روس کے پاکستان سے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے جب کہ روس، پاکستان کے دیرینہ برادر ملک چین کے بھی قریب ہو گیا ہے۔

ہم وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن وطن عزیز کو کسی بلاک میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔مغرب،روس اور چین کے ساتھ ہمیں بہتر تعلقات رکھنا ہوں گے،کیوں کہ گلوبل صورتحال اس کا تقاضا کرتی ہے۔چین اور امریکہ نیز امریکہ اور روس کے مابین ان دنوں اختلافات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔وطن عزیز کے مفادات کے پیش نظر ہمیں غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہوناہو گا۔اگر ماضی کی طرح ہم امریکی بلاک کی جگہ چینی بلاک میں شامل ہوئے تو اس کا بھی ہمیں نقصان ہو گا کیوں کہ پاکستان کے معاشی مفادات مغرب سے وابستہ ہیں۔امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سے بھی اچھے تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔

مزید پڑھیں