اداریہ: جمعتہ المبارک11 مارچ 2022
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے جس پر حزب اختلاف کے 86 ارکان اسمبلی نے اپنے دستخط ثبت کیے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش کرنے کے لیے آصف علی زرداری نواز شریف مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف نے گھنٹوں مشاورت کی اور اپنی حکمت عملی تیار کی اگلے روز تحریک عدم اعتماد کرنے کے بعد شہباز شریف مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں مشتر کہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اُنہوں نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی وجوہات سے میڈیا کو آگا ہ گیا۔
ایک طرف جہاں اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے اور اسکا کہنا ہے کہ اسے بعض وفاقی وزراء سمیت 202 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جبکہ تحریک عدم اعتماد کی کا میا بی کیلئے 172 ووٹ درکار ہیں دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی باڈی لینگونج سے انتہائی مطمئن دکھائی دیتے ہیں اپوزیشن کو اطمینان ہے کہ ما ضی کے بر عکس اب مقتدر حلقے غیر جانبدار ہیں اس لیے کامیابی انکے قدم چومے گی۔
وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم دکھا ئی دیتے ہیں حکومت کے پاس وسائل ہیں انٹیلی جنس بیور آئی بی کا طا قتور محکمہ بھی ہے جو اس حوالے سے لمحہ بہ لمحہ کی صورتحال سے وزیر اعظم کو آگاہ کر رہا ہے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی اُن کے خلاف تھی لیکن اس کے باوجود اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد 19 ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی۔
گو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق ہے اسکا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے آئندہ تین ہفتے اسکے لیے انتہائی اہم ہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا نا کام ملکی سیاست پر اسکے گہرے اثرات مرتب ہوں گے