اداریہ: جمعرات 03 مارچ 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا شمار عدلیہ کے اُن قابل فخر ججز صاحبان میں ہو تا ہے جو وطن عزیز میں آئین کی علمداری اور آزدای اظہار رائے کے زبردست حامی ہیں آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب اعلی عدلیہ کے ججز کو نظر بند کیا گیا تو اُنہوں نے وکلاء تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں میڈیا پر کنٹرول کرنے اور اسکا گلہ گھونٹنے کے لیے پیکا آرڈنینس نافذ کیا ہے جسکی وطن عزیز کی تمام سر کردہ میڈیاتنظمیں شدومد سے مخالفت کر رہی ہیں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے پیکا آرڈی نینس کو یکسر مسترد کر دیا ہے جبکہ وکلاء تنظمیں بھی کھل کر اس کالے قانون کی مخالفت کر رہی ہیں
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں پیکا آرڈی نینس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی رٹ درخواست زیر سماعت ہے چیف جسٹس اطہر من اللہ اسکی سماعت کے دوران پیکا آرڈی نینس کو ڈریکو نین قانون قرار دے چکے ہیں۔ اُنہوں نے اگلے روز وزیر اعظم عمران خان کے قوم کے خطاب میں پیکا آرڈی نینس کے حوالے سے گفتگو کے بارے میں اپنے عدالت میں دائر رٹ درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ شاید وزیر اعظم کی پیکا آرڈی نینس کے بارے میں کسی نے صحیح راہنمائی نہیں کی
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے پیکا آرڈی نینس کے خلاف ریمارکس کے بعد بعض شر پسند عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر انکی کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے جو انتہائی نفرت انگیز ہے۔ہم چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ کے خلاف چلائی گئی اس بے ہودہ اور اخلاق بافتہ مہم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے خلاف پراگندہ مہم چلانے والے شر پسند عناصر کا سراغ لگا کر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کاروائی کریں اور اُنہیں فی الفور قانون کے کٹہرے میں لائیں۔