اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سیاسیات نے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی حالت، عصر حاضر میں حکمرانی کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیاگیا۔ سیمینار میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے متعدد شعبہ جات کے طلباؤطالبات اوراساتذہ کرام نے شرکت کی۔ سیمینار کا آغاز سیمینار کے فوکل پرسن ڈاکٹر صفدرحسین، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات کے کلمات سے ہوا۔ ڈاکٹرصفدر حسین نے موضوع کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ جمہوریت عالمی سطح پر حکمرانی کا سب سے موزوں اور قابل قبول نظام ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین، چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ پاکستان اسٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی لاہور نے خودمختاری کے بغیر پاکستان میں پارلیمنٹ کے کردار کو سمجھنے کے موضوع پر بات کی۔ پروفیسر محبوب حسین نے کہا کہ ایک جدیدپارلیمنٹ تین کام کرتی ہے: ووٹروں کی نمائندگی کرنا، قوانین پاس کرنا اور چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے انتظامیہ کی نگرانی کرنا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ ایک مضبوط جمہوری ادارے کے طور پر اپنا فرض پورا کرنے میں صرف جزوی طور پر موثر ہے۔ انہوں نے پاکستان کے آئین میں مختلف ترامیم کے کام اور ضرورت کے ساتھ ساتھ ان کے فوائد اور نقصانات کا پارلیمنٹ کی خود مختاری کے حوالہ سے تجزیہ کیا۔ ڈاکٹر فخر بلال،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کے تعلق کا نوآبادیاتی نقطہ نظر سے آغاز کیا اور کہا کہ تاریخی طور پر پارلیمنٹ کئی طرح کی سوچی سمجھی، مشاورتی اور عدالتی اثرات کے زیر اثر رہی ہے۔ انہوں نے نوآبادیاتی ریاستوں میں اسلامی انتظامیہ کے تصور پر بات کی۔ ڈاکٹر فخر بلال کے مطابق افراد اور ریاست دونوں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔سیمینار کے اختتام پر مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بھٹی، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے اس مسئلے پر اپنی بصیرت پیش کی۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مصور حسین بخاری، چیئرمین شعبہ سیاسیات نے شرکاء اور مہمان مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔اور کہاہمارے شعبہ کے طلباو طالبات پاکستان کا فخر اس وقت بن سکتے ہیں جب وہ رواداری برداشت اور درگزر کی دو لت سے مالا مال ہونگیاور اسلامیہ یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات بنیادی طور پر علمی ترقی کے ساتھ ساتھ طلبا وطلبات کی سماجی تربیت اس انداز سے کر رہا ہے۔