Contact Us

پاکستان کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاست مدینہ کے تصور پر مبنی ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں ، وزیر اعظم عمران خان

Imran khan

اسلام آباد۔22نومبر: وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ پاکستان کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاست مدینہ کے تصور پر مبنی ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیخ حمزہ یوسف سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کی بنیاد دو اصولوں پر رکھنا چاہتے ہیں، اول فلاحی اورانسانی ریاست جو معاشرے کے نچلے طبقے کا خیال رکھے اور دوسرا جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ موسمیاتی بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ماحول کا تحفظ ایک مقدس فریضہ ہے جب آپ اس مقدس عمل سے مکمل لا تعلق ہو جاتے ہیں اور صرف مادیت پرست ہو جاتے ہیں، تو ویسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ دنیا میں ہو رہا ہے،انہوں نے کہا کہ مقدس کا بنیادی مطلب دوسروں کا احساس اور ہمدردی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی جسے موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ انسان قدرت سے بہت دور چلا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آخرت کے لیے ایسے جیو جیسے آپ نے کل مرجانا ہے، ”بس تمہارے اعمال ایسے ہونے چاہیئیں کہ اگر تم کل مرجاﺅتو اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب دے سکولیکن دنیا میں ایسے جیو جیسے ہزار برس جینا ہے“۔ وزیر اعظم نے کہا کہ لہذا آپ ابھی جو کچھ بھی کر رہے ہیں آپ کو اس کے اثرات کے بارے میں سوچنا چاہئے جو انسانیت پر مزید ہزار سال تک پڑیں گے،”۔ لہذا یہ آپﷺ کا عظیم فرمان ہے کیونکہ اس نے ماحولیات کے بارے اور زمین پر کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے، ہر چیز کا مکمل احاطہ کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پوری ماحولیاتی تحریک مقدس فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو انسان کو دوسروں کا احساس ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی نظام کے ذریعے جو قیادت سامنے آئی وہ عقیدے کے اصولوں سے بالکل الگ ہوگئی ،وہ اقتدار کے لئے آئی اور اس نے اقتدار میں رہنے کے لیے سمجھوتہ کیا اور بیشتر سیاستدانوں نے اقتدار ذاتی فائدے کے لیے حاصل کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “مجھے چند سیاستدان ملےجن کو انسانیت سے ہمدردی اور احساس کے مخصوص مقاصد پر کاربند پایا۔ ترقی پذیر دنیا میں زیادہ تر سیاستدان اپنے مفاد اور پیسہ کمانے کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔بدقسمتی سے بہت کم منڈیلا تھے جو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے آئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح وہ شخصیت تھے جو ایک عظیم مقصد کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے آتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں اپنی ذات کی خدمت کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اپنے عقیدےکی وجہ سے سیاست میں آئے ہیں۔ میرے پاس سب کچھ تھا۔ میں ایک اسپورٹس اسٹار کی حیثیت سے پہلے ہی ملک کا ایک بڑا نام تھا اور میرے پاس دولت شہرت تھی۔ اسلئےمیرے لیے 22 سال تک جدوجہد کرنے کا مقصدمحض وزیر اعظم بننا نہیں تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مجھے یقین تھا کہ معاشرے کے لئے میری کوئی ذمہ داری بنتی ہے کیوں کہ مجھے دوسروں سے زیادہ عطا کیاگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام مذاہب کے مطابق انسان کی آزمائش یہ ہے کہ اسے جو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق اس کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا خدا ہمیں تمام نعمتیں دے کر آزمائے گا، میں سیاست میں اس لیے آیا کیونکہ مجھے اس پریقین تھا اور کیونکہ مجھے یقین ہے، میں نے محسوس کیا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے معاشرے کے لیے ذمہ داری ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی مفادات یا اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست میں نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انسان کے بس میں جدوجہد کرنا ہوتا ہے کامیابی اللہ کی عطا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مہذب معاشرے کا بنیادی اصول قانون کی حکمرانی ہے جہاں آپ طاقتور کو قانون کے دائرے میں لاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے، وہاں امیروں کے لیے ایک اور کمزوروں کے لیے دوسرا قانون ہے اور جیلیں غریبوں سے بھری ہوئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ صلاحیت ہے اور باصلاحیت لوگ ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ وسائل پر اشرافیہ قابض ہے جس کی وجہ سے اکثریت صحت، تعلیم اور انصاف سے محروم ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی صلاحیت سے استفادہ نہیں کر سکا۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو کوئی بھی معاشرہ کبھی اپنی صلاحیتوں کو حاصل نہیں کر سکتا۔ میرٹ کا تعلق بھی قانون کی حکمرانی سے ہے۔ اگر آپ کے پاس معاشرے میں میرٹ کریسی نہیں ہے تو یہ اشرافیہ قابض ہو جاتی ہے اور جس نے جدوجہد ہی نہیں کی ہوتی وہ اہم عہدوں پر فائز ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ممالک زوال پذیر اشرافیہ کی وجہ سے بکھر جاتے ہیں۔ لوگ زوال پذیر نہیں ہوتے ، اشرافیہ ہی زوال پذیر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ریاست قائم کی تو آپ نے ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جو سب کے سب رہنما بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ یکساں سازگار ماحول کے لئے پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور وہاں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہے اور دوسروں کے پاس مواقع نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پاکستان میں جدوجہد سے پاکستان کے لوگوں کی صلاحیتیں اجاگر ہوں گی۔ اور دوسرا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام شروع کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا، دولت پیدا کرنا اور اسے پھیلانا اور اشرافیہ اور مافیاز کی اجارہ داری کو توڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ عقیدہ انسان کو باوقار بناتا ہےاور اسی سے انسان کو آزادی ملی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کا ضمیر خریدا نہ جا سکے، انہوں نے کہا کہ خود اعتمادی انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

مزید پڑھیں