اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

القادر یونیورسٹی اور رحمت اللعالمین اتھارٹی آئندہ نسلوں کو سیرت النبی ، اولیاکرام کی تعلیمات آگاہ کرنے اور کردار سازی کے لئے تحقیق کے اہم مراکز ہوں گے، وزیراعظم عمران خان

Imran khan

اسلام آباد۔29نومبر: وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی جامعات میں تحقیق کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو سیرت النبی ﷺ، اولیاکرام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور کردار سازی کے لئے القادر یونیورسٹی اور رحمت اللعالمین اتھارٹی تحقیق کے اہم مراکز ہوں گے، القادر یونیورسٹی مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل کو سلجھانے کے حوالے سے عالمی سکالرز کے تعاون سے تحقیق و مباحثہ کا محور بنے گی ، قرآنی احکامات کے باوجود معاشرے میں اجتہاد سے دوری بدقسمتی ہے، عظیم قوم بننے کے لئے عظیم کردار چاہیے، اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کرسکتا، خودغرض ،بزدل اور بدعنوان شخص کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ پیر کو جہلم میں القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتےہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں تاریخ کا طالب علم ہوں، میں نے تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ 1960 کی دہائی میں دنیا میں پاکستان کی ایک حیثیت تھی اور پاکستانیوں کی دنیا میں بہت عزت تھی۔ اس وقت یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ پاکستان ایشیا کا کیلیفورنیا بننے جا رہا ہے، پھر ہم نے یہاں زوال آتے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے عقیدے کی بنا پر سیاست میں آیا کیونکہ سیاست میں آنے سے پہلے میں دولت ، شہرت سمیت سب کچھ دیکھ اورحاصل کرچکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی انسان پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، ایمان والا آدمی دولت ، شہرت ، انا ، ذات ، برادری کی زنجیروں کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ جب انسان ان زنجیروں سے آزاد ہو جائے تو اس کی صلاحیت کو بروئے کار آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا ، اسے وہ صلاحیتیں دیں جو کسی اور مخلوق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مدینہ کی ریاست کا مطالعہ کیا ، آخر کیا وجہ تھی کہ 2 سپر پاورز کی موجودگی میں بظاہر کم پڑھے لکھے لوگوں نے دنیا کی امامت شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ میں اپنے مطالعہ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہم سیرت النبی ﷺ پر نہیں چلیں گے ،علامہ اقبال کےخواب کی تکمیل نہیں کرسکیں گے۔ ان کی سوچ کسی کی ذہنی غلامی اور نوآبادیاتی نظام سے آزاد تھی کیونکہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سےزیادہ خوفناک ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب اور اسلام کے موازنے پر علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ لکھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک طرف انگریزی نصاب تعلیم دوسری طرف اردو اور پھر دینی مدارس ان تین متوازی نظام تعلیم سے تین مختلف طبقات نکلنا شروع ہوئے جن کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لئے ہم نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ پاکستانی لوگ ﷲ کے نام پر خیرات کرتے ہیں ، نماز ،روزہ ، حج و عمرہ کے پابند ہیں۔ اسلام کے خلاف جب بھی کوئی معاملہ ہو تو سب سے پہلے پاکستانی نکلتے ہیں۔ ہم ایک طرف سچے عاشق رسول ﷺ اور ہمارا دین پر سب سے زیادہ زور ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ ہماری زندگی اس کا عملی نمونہ نہیں ہے۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایک بڑے سکالر اشفاق احمد کی چین کے عظیم راہنما ماﺅزوئے تنگ سے ملاقات ہوئی تو چینی راہنما نے پاکستان کو عظیم قوم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھاکہ جو قوم شدید گرمی میں ﷲ کے خوف کی وجہ سے روزہ کی حالت میں پانی نہیں پیتی وہ ﷲ کے خوف سے رشوت سے بھی بچ سکتی ہے ، وہ پورا ٹیکس بھی دے سکتی ہے ، ایسے ملک کو کوئی ترقی سے نہیں روک سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہی مدینہ کی ریاست کے اصول تھے۔ وہاں خود احتسابی تھی۔ مسلمانوں کےکردار کی وجہ سےغیر مسلم اسلام قبول کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عظیم قوم بننے کے لئے عظیم کردار اپنانا چاہیے۔ نبی ﷺ کی نبوت سے پہلے پہچان صادق اور امین کی تھی۔انہوں نے کہا کہ سچ اور انصاف کی بنیاد پر کردار بنتا ہے۔ ان صفات کے بغیر کوئی لیڈر نہیں بن سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نبی ﷺ کی سیرت کے مطالعہ کے لئے ادارہ بنانے کی سوچ پیش نظر تھی ۔ ہم عاشقان رسول ﷺ ہیں اور ان کی سیرت پر عمل کرنے والی قوم بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے قیام میں جن اولیا کرام کا کردار تھا وہ سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ انہوں نے عام انسانوں کی زبان میں سیرت نبوی ﷺ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اس مقصد کے لئے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی بنائی ہے۔ اس کے لئے میڈیا کو بروئے کار لائیں گے۔ لوگوں کو سیرت النبی ﷺ سے آسان زبان میں آگاہی دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں جتنے کم وقت میں ایک سے بڑھ کر ایک عظیم انسان سامنے آیا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اس پر بھی اس یونیورسٹی میں تحقیق کریں گے کیونکہ یونیورسٹی کا بنیادی کام تحقیق ہوتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں سارے سائنس دان اور دانشور ایک ساتھ چل رہے تھے۔ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کی ضرورت ہے۔اپنی آنے والی نسلوں کو مغربی تہذیب سے آگاہ کرنے کے لئے تحقیق ضرور ی ہے تاکہ انہیں بتایا جائے کہ مغرب میں اگر ٹیکنالوجیکل ترقی نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف ان کی عبادت گاہیں خالی ہو رہی ہیں۔ صرف مادی ترقی سے معاشرے میں عدم توازن پیداہورہا ہے۔ اس حوالے سے ہماری نوجوان نسل ابہام کا شکار ہے۔ اس ترقی کو دیکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ مغرب میں ہونے والی اس ترقی کے اثرات کے حوالے سے تحقیق کرنا یونیورسٹیوں کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیامیں اس وقت سب سے بڑا چیلنج موبائل فون ہے۔اس کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ کیا منفی اثرات ہیں اور ان سے کیسے بچنا ہے؟ ہم سوشل میڈیا کو بند تو نہیں کرسکتے لیکن اپنے بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکتے ہیں اور ان میں شعور پیدا کر سکتے ہیں۔ القادر یونیورسٹی عالمی سکالرز کے تعاون سے تحقیق ، مباحثہ کا مرکز بنے گی۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اجتہاد نہیں ہونے دیتے حالانکہ اجتہادقرآن کا حکم ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ موقف سے اختلاف رائے رکھنے والے کو کافر قرار دے دیتے ہیں جب ایسی سوچ ہو تو ہم آگے کیسے بڑھ سکتےہیں۔ کفر کےفتوﺅں کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے ہمارےمقابلے میں مغرب میں اسلام پر زیادہ تحقیقی کام ہو رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں سب کچھ ہے صرف باکردار قیادت کی کمی رہی ہے۔ عوام کی خدمت پیغمبرانہ کام ہے۔ وہ انسانیت کی خدمت کے لئے آئے۔دوسری جانب جب کوئی لیڈر بن کر قوم کا پیسہ چوری کر ے توملک کے لئے اس سے زیادہ بڑا عذاب کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ نبی ﷺ نے لیڈر شپ کا جو تصور دیا تھا اس پر یہ یونیورسٹی اور رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی تحقیق کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ خود غرض آدمی کبھی لیڈر نہیں بن سکتاجو اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچے وہ قائد اعظم کی شکل میں لیڈر بنتا ہے۔ خود غرض کے ساتھ ساتھ بزدل انسان بھی کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ ﷲ تعالی ٰایمان والوں کے خوف دور کردیتا ہے۔ اسی لئے مدینہ میں ایک سے بڑھ کر ایک بڑا لیڈر آیا۔ وہ لوگ صادق اور امین تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں لیدڑ شپ کا معیار یہ تھا کہ کتنا پیسہ کمایا اور اپنے کتنے رشتہ داروں کو اوپر لے آئے تاہم مدینہ کی ریاست میں میرٹ تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس یونیورسٹی میں دنیا کے دانشوروں کے ساتھ مل کر تحقیق کے مواقع ہوں گے ، اگر کسی ملک میں نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو مسلمان سربراہان اور اسلامی سکالرز مل کر ایسا مدلل جواب دیں کہ کوئی ملک یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمان اظہار رائے کے خلاف ہیں۔ یہاں بڑے بڑے بزرگان دین پر بھی ریسرچ ہو گی۔ ان کے کلام پر تحقیق ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہاں اخلاقیات تباہ ہوں گی وہاں سونا، ہیرے جواہرات بھی نکلیں پھر بھی وہ ریاست نہیں بچ سکتی۔ مدینہ کی ریاست کا تصور امر بالمعرو ف و نہی عن المنکر تھا۔ وزیر اعظم نے معاشرے میں بدعنوانی کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی سے معاشرہ تباہ ہو جاتاہے اور اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو 1985 کے بعد اس ملک میں سب سے بڑی تباہی بدعنوانی کی صورت میں آئی۔ ایسا معاشرہ جس میں محنت کرنےوالا یہ دیکھے کہ قبضہ گروپ بڑے بڑے پلازے بھی کھڑے کرلیتا ہے اور وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے تو ایسے معاشرے میں اخلاقیات پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ہماری بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ شخص جھوٹ بول کر ملک سے بھاگا ہوا ہے۔ انہوں نے اخلاقی اقدار کی اہمیت پر زور دیتےہو ئے کہا کہ اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں سکتا۔ ہم نے آنے والی نسلوں کی سیرت النبی ﷺ کے مطابق کردار سازی کرنا ہے۔

مزید پڑھیں