قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید

Zulfikar Ali Bhutto

تحریر: محمد علی احسن
ڈیٹی سیکریٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی جنو بی پنجاب

آج 4اپریل ہے ، آج سے 44سال قبل 1979کی 3اور 4اپریل کی درمیانی رات جس کی صبح بھی سیاہ رات کی طرح طلوع ہوئی ۔ جس نے پاکستان ، عالم اسلام اور تیسری دنیا کی خوشحالی کی اُمید ، عوام کی طاقت اور ملکی وسائل کے ذریعے قوموں کی عزت کے وژن ، پاکستانی عوام کے منتخب عوامی وزیرا عظم ، اسلامی سر براہی کانفرنس کے چیئر مین ، پورے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے خالق ، پا کستا ن کے پسے ہوئے محروم طبقات کے ہر دل عزیزقائد ، شہید ذولفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے ، گھٹیا مقدمے اور گھناونی سازش کے تحت ایک عدالتی قتل کے ذریعے ہم سے چھین لیا گیا ۔ جس کے انصاف کے لیے صدارتی ویفر نس 12سال سے پاکستان کی سپر یم کورٹ کے دروازے پر کھڑا دستک دے رہا ہے ۔ شہید ذولفقار علی بھٹونے ” میری سب سے پیا ری بیٹی” شہید بے نظیر بھٹو کو اپنے آخری خط میں ایک جگہ سکھا کہ ” میں ستمبر 1960میں ترکی گیا تاکہ ترکی کے سابق وزیر اعظم عدنان میند یرز کی پھانسی کی سز ا ر و کوانے کے لیے جنرل گرسُل سے درخواست کرسکوں۔ میری جنرل گرسل سے طویل ملاقات ہوئی ۔جنرل نے مجھ سے کیا کہ ترکی کے مسائل میند یرز کی سزائے موت پر عمل کر کے حل ہوجائیں گے ۔ ترکی کے کچھ حصوں میں پرتشد د رردعمل ہوگا ۔ لیکن پھر چند مہینوں میں ہرشخص میند یر ز کو بھول جائے گا۔ میں نے جنرل گرسُل سے کہا کہ ترکی کی مسائل میند یرز کو پھانسی دے دینے سے حل نہیں ہوں گے بلکہ اصل مسائل کی ابتداء ہی میندیرز کی پھانسی سے ہوگی ۔ میں نے ان سے کہا کہ ترکی کے عوام اس پھانسی کو چند مہینوں میں نہیں بھلادیں گے ۔ اس کے برعکس ہر ترک کئی سالوں تک پھانسی کے اس گنا ہ کا احساس اپنے ساتھ لئے پھرئے گا ۔ میں نے جنرل گرسل سے کہاکہ میند یرز تو پھانسی پا کہ لا فانی ہوجائے گا لیکن اس سانحہ کا گہرا داغ ترکی کے چہر ے پر نمودار ہوجائے گا اور اس کی سیاست میں ایک گہری تفریق پید ا ہوجائے گی "۔

Zulfikar Bhutto with his both sons

اپنی شہادت سے 19سال قبل شہید ذولفقار علی بھٹو نے میندیرز کی پھانسی اور اس کے نتیجے میں ترکی پر مرتب ہونے والے اثرات کا جو تجزیہ کیا تھا ۔ وہ تجزیر خو د شہید ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد ہوبہو پاکستانی سیاست اور ریاست پر مرتب ہوا۔ شہید ذولفقار علی بھٹو تو پھانسی کے جھولے پر جھول کر لافانی ہو چکے ہیں لیکن ان کے اس عدالتی قتل کاداغ ہمیشہ پاکستان کی ریاست پر ایک بدنماداغ کے طور پر موجود رہے گا۔ شہید ذولفقارعلی بھٹو کی پھانسی نے پاکستان کی سیاست میں جو گہری تفریق پید ا کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ شہیدذولفقار علی بھٹو کی پھانسی سے پاکستان کی سیاست اور ریاست کے لیے جومسائل پید ا ہوئے تھے وہ آج تک کسی طور حل ہونے نہیں پارہے ہیں ۔ شہید ذولفقارعلی بھٹو کو پاکستان کے جمہوریت پسند عوام نہ بھوے ہیں اور نہ کبھی بھول پائیں گے ۔ا س کا نام اور اس کامزار روز روشن کی طرح موجود ہے جبکہ اس کے خلا ف سا زش کرنے والے تمام کردار گمنام ہوچکے ہیں ۔تمام سیاسی مخالفیں آج ان کی شہارت کو عدالتی قتل مان رہے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست شہید ذولفقاعلی بھٹو کی جرات ان کی دلیری اور اس کے کارناموں کا حوالہ دیئے بغیر بد ترین مخالفین بھی اپنی سیاست آ گے نہیں بڑ ھا سکتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شعر تو بناہی شہید ذولفقاری بھٹو کے لیے ہے ۔
ٍٍٍ کہ جس دھیج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلاست رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

شہید ذولفقا ر علی بھٹو کے بیس سال کے سیاسی سفر (1959-1979)پر نگاہ ڈالی جائے تو بندہ ششدہ رہ جاتا ہے کہ ان کی سیاسی جد وجہد بطور پارٹی سر براہ ،بطور صدر و زیر اعظم اور بطو ر ایک قتل کے قیدی ایک عام آ دمی میں اتنی بے شمار صلاحتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں ۔ اس کا سید ھا سا جواب ہے کہ جس شخص کا نام ذولفقارعلی بھٹو تھا وہ غیر معمولی صلاحتیں والا پید ائشی سیاستدان تھا۔شہید ذولفقار علی بھٹو نے جس ٹوئے ہو ئے ، بکھرئے ہوئے اور نا امید پاکستا ن اور پاکستانی عوام کو سنبھالا اور جس حوصلے دلیری اور امید کے ساتھ پاکستان اور پا کستانی عوام میں نئی امنگ پید اکی اسی کی لیڈرر شپ کا خاصہ تھا۔ بد ترین اور نامساعد حالات میںشملہ معاہدہ، 1973کامتفقہ آ ئیں، قادیانیوں کو اقلیت اور ملک کو ایٹمی قوت بنانا اس کی لیڈرشب کا وہ خاصہ ہے جس پر کوئی بھی قوم اپنا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے ۔

قائد عوام ذو الفقار علی بھٹو کو یہ بات ہر گز قبول نہیں تھی کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کوئی عالمی طاقت یا اس کے گماشتے کریں۔ جب انہیں وزیر خارجہ کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملا تو انہوں نے پاکستان کو پہلی مرتبہ ایک موثر اور مضبوط خارجہ پایسی دی اور دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ پاکستان ایک غیر جانبدار ،خود مختار اور آزاد ملک ہے اور وہ کسی بیرونی قوت یا عالمی طاقت کے تابع کوئی پالیسی وضع نہیں کرے گا۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے قائد عوام ذو الفقار علی بھٹو شہید کی خدمات ہماری قومی تاریخ کا نا قابل فراموش اور قابل رشک باب ہے۔

انہوں نے ملک میں جمہوری اور عوامی سیاست کی بنیاد رکھی۔ قائد عوام ذولفقار علی بھٹو نے جمہوری کارکنوں اور غریبوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کیلئے جدو جہد کرنے والوں کو متحد و منظم کرنے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی تو ملک پر استحصالی سیاست کو بر قرار رکھنے کے حامی عناصر نے ان کے خلاف الزامات کا طوفان کھڑا کر دیا اور ان کی زندگی کے آخری سانسوں تک مخالفت اور کردار کشی کرتے رہے ۔ قوم پرست اور عوام دوست رہنماذولفقار علی بھٹو شہید نے بے پناہ مسائل اور مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان کو عزت و وقار استحکام اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا۔ اگر ان کا اختیار کیا راستہ بند نہ کیا جاتا اور ان کے بعد ملک پر مسلط ہونے والے آمر اور اس کی باقیات غلط حکمت عملی اختیار نہ کرتی تو آج پاکستان کا شمار دنیا کے انتہائی مضبوط اور خوشحال ملکوں میں ہوتا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید پاکستان ہی نہیں تیسری دنیا کے مقبول رہنما تھے۔ انہوں نے جہاں پاکستان کو مضبوط خارجہ پالیسی دی وہاں قومی دفاع کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانے کیلئے پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی۔ قائد عوام ذو الفقار علی بھٹو شہید ملک کے سیاسی افق پر شان کے ساتھ نمودار ہوئے اور چھا گئے۔ وہ سیاست کا محور رہے اور عوامی سیاست کی شناخت بن کر رہ گئے۔ ان کی شخصیت وطن دوستی ذہانت’ خوبصورتی اور عزم و ارادے کی پختگی سے عبارت تھی۔ انہوں نے سیاست میں وطن پرستی کی بنیاد رکھی۔ ان کی سیاست ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے سیاست کو اپنے ذرائع آمدنی اور ذاتی وسائل کو وسعت دینے کا ذریعہ بنایا۔ آج وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن قومی سیاست ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت افکار اور سیاسی و عوامی جدو جہد کے گرد گھوم رہی ہے اور مستقبل میں بھی ان کا نام،مقام اور نظریات زندہ رہیں گے۔ذو الفقار علی بھٹو شہید نے کسانوں، مزدوروں طالب علموں اور کارکنوں کی سیاسی تربیت کی اور انہیں ناقابل تسخیر قوت بنادیا۔ وہ سیاسی استاد تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک ملک کے کروڑوں غریب اور بے بس عوام کے ساتھ اپنا نا تعلق بر قرار رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صدر مملکت اور وزیر اعظم کی حیثیت سے پانچ سال چھ ماہ اور پندرہ دن حکومت کی۔ پاکستان کی تاریخ میں اس عرصہ کو کئی حوالوں سے یادگار حیثیت حاصل ہے۔ اس دور میں پاکستانی قوم نے ان کی قیادت میں کئی کامیابیاں حاصل گئیں اور ان منزلوں کو حاصل کیا جو پاکستانی قوم کی خواہش اور خواب رہی ہیں۔ ان کے دور میں ان کے خلاف جو سازشیں کی ہوئیںوہ پاکستان کے عوام کے خلاف سازشیں تھیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مخالفین پاکستان کے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے محروم کرنا چاہتے تھے اور وہ اس میںکامیاب ہوئے۔ انہوں نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف طالع آزماؤں ، غیر جمہوری عناصر سے گٹھ جوڑ کر لیا اور انہیں عوام کی امنگوں اور مرضی کے خلاف جبرا اقتدار سے محروم کر کے ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی اور طویل عرصہ تک آمر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنارہا اور آخر کار عدالتی ڈھونگ کے ذریعے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ ایسا کرنے والوں کے خیال میں تھا کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو جسمانی طور پر ختم کر کے لوگوں کے دلوں میں ان کی انقلابی سیاسی سوچ کو ختم کر دیا جائے گا۔ اور جمہوری کارکنوں کے ذہن سے بھٹو کی سوچ کو کھر بیچ دیا جائے گا لیکن یہ سب کچھ نہ ہو سکا۔ بھٹو کو شہید کرنے والوں کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شہادت کے بعد ان کی بہادر بیٹی نے پاکستان کے غریب عوام اور پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھائی محترمہ بینظیر بھٹو شہید پاکستان کے غریب عوام کے قائد کی تقلید اور استحصالی نظام کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے دومر تبہ ہو وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہو ئیں تو دونوں بار امر کی باقیات نے آمر کے دور میں کی جانے والی غیر جمہوری آئینی ترامیم کے ہتھیار سے ان کی حکومت ختم کر دی اور بھٹو ازم کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جدو جہد کو ختم کرنے کیلئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی طرح ان کی بیٹی کو بھی جسمانی طور پر ختم کر دیا لیکن قائد عوام ذو الفقار علی بھٹو شہید کی طرح محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے نام اور افکار کو لوگوں کے دل و دماغ سے ختم نہ کیا جاسکا۔

اب جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت شہید ذولفقارعلی بھٹو کے نواسے اور شہید بے نظیر بھٹوکے بیٹے بلاول بھٹو صاحب نے سنھبالی ہے اور بطور پارٹی رہنما اور بطور وزیر خارجہ انہوںنے اپنے نا نا اور اپنی والدہ کے وژن کواتنے بھرپور طریقے سے آگے بڑ ھایا ہے کہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں ایک مرتبہ پھر شہید ذولفقار علی بھٹو کی یاد تازہ ہوگئی ہے اور پاکستان کے پسے ہوئے محروم طبقات آج بھی پاکستان پیلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی قیادت میں اپنے بے پناہ مسائل کا حل دیکھ رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت ہی شہید ذولفقارعلی بھٹو کی طرح پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالے گی۔

Zulfikar Ali Bhutto & Bilawal Bhutto