عالمی یوم انصاف اور پاکستان کا جوڈیشل سسٹم
تحریر : شیخ عزیز الرحمن
پاکستان بھر میں 22 لاکھ 60 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جن میں ہائی کورٹس میں 81 فیصد کیسز دیوانی مقدمات پر مشتمل ہیں
احمد پور شرقیہ تحصیل میں 13 ہزار کے قریب سول اور فوجداری کیسز لٹکے ہوئے ہیں
ہر سال، لوگ 17 جولائی کو بین الاقوامی انصاف کا عالمی دن مناتے ہیں. یہ دن بین الاقوامی فوجداری انصاف کو فروغ دینے اور بین الاقوامی برادری کو متاثر کرنے والے سنگین جرائم کے لیے مجرموں کے لیے استثنیٰ کے خلاف جنگ کا احترام کرنے کے لیے وقف ہے. یہ دنیا بھر میں ہونے والے مظالم سے نمٹنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے انصاف، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت کی یاد دہانی ہے. ورلڈ رینکنگ میں رول اف لا انڈیکس کے مطابق دنیا کے 142 ممالک میں 130 ویں نمبر پر انے والے پاکستانی انصاف کے ایوانوں میں بھی عالمی یوم انصاف منایا جا رہا ہے- دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان بھر میں 22 لاکھ 60 ہزار کیسز زیر التوا ہیں جن میں ہائی کورٹس میں 81 فیصد کیسز دیوانی مقدمات پر مشتمل ہیں پاکستان کے سب سے بڑے انصاف کی فراہمی کے ادارہ سپریم کورٹ اف پاکستان کے پاس بھی 58 ہزار کیسز اپنے حل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ہماری عدالتوں میں سیاسی افراد کے کیسز تو خوب چلتے ہیں لیکن انصاف کی فراہمی کے لیے غریب اپنی جمع پونچی فروخت کر کے عدالتوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہے اسی تناظر میں دیکھا جائے تو احمد پور شرقیہ تحصیل میں 13 ہزار کے قریب سول اور فوجداری کیسز لٹکے ہوئے ہیں عدالتوں میں زیر التوا کیسز کا بہت زیادہ بوجھ ہے ان کے حل کے لیے صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ ریفارمز کی جائیں خصوصا جوڈیشل ریفارمز کے اعلان کردہ اعلانات پر عمل درامد کرانے سے کافی حد تک بہتری ا سکتی ہے -سول کورٹس میں تعینات سول ججوں کی مانیٹرنگ بہت ضروری ہے بین الاقوامی انصاف کے عالمی دن کی تاریخ کا پتہ 17 جولائی 1998 سے لگایا جا سکتا ہے، جب مجسمہ روم کو اپنایا گیا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت قائم کی گئی. آئی سی سی پہلی مستقل بین الاقوامی عدالت ہے جو نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور جارحیت کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلاتی ہےاور حال ہی میں اسرائیل کے خلاف عالمی انصاف کی عدالت نے فیصلہ تو دے دیا مگر اس پر عمل درامد نہ ہو سکا جب قومی عدالتیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں.تو اس سلسلے میں عالمی یوم انصاف بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ایک طرف جب پاکستانی نزاد شبانہ محمود برطانیہ میں لارڈ چانسلر کے عہدے پر تعینات ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی عدالتوں میں چلنے والے کیسز پر ہمارے سیاسی اکابرین کو اعتماد نہیں رہا اور وہ ڈھکے چھپے اور کہیں کہیں کھلے الفاظ میں بھی مذمت کرتے نظر اتے ہیں اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے خصوصا سول کورٹس میں دیوانی اور دیگر مقدمات کا ٹائم بانڈ پیریڈ مقرر کیا جائے تاکہ مقررہ وقت میں فیصلہ ہو سکیں پاکستان میں بہت سے مقدمات صرف الجھانے کے لیے اور عدالتوں میں مخالف فریق کو رسوا کرنے کے لیے بھی دائر کیے جاتے ہیں جس کا فائدہ صرف اور صرف جوڈیشری سے وابستہ افراد اور خصوصا ایڈوکیٹس اٹھاتے ہیں- سول ججوں سے لے کر نچلی عدلی عدالتی عملے کے بینک اکاؤنٹس اور بے نامی جائیدادوں گوشواروں کا معائنہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے اتنی جلدی کہاں سے کروڑ پتی بن گئے جہاں سول کورٹس میں فیصلوں کے عوض نا انصافی کے فیصلے فراہم کیے جائیں گے تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ظلم کا معاشرہ تو چل سکتا ہے لیکن بے انصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا ہمارے پاکستانی معاشرے میں بے انصافی ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے یہاں پر ہمارے حکمران امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب سے غریب تر ہو رہا ہے- سول کورٹس میں تعینات عام سول ججوں نے متعدد اے سی لگا کر ٹھنڈے کمروں میں مزے مار رہے ہوتے ہیں جبکہ ان کی اکثر کی کارکردگی بہت کمزور ہے جبکہ 40 40 سالوں سے کیس لڑنے والے متاثرین برامدوں میں دھوپ میں گرمی میں سخت پریشانی کا شکار ہوتے ہیں- ججوں کی تعیناتی کے بعد ان کی مانیٹرنگ خفیہ طریقے سے کرنا ضروری ہے بعض جج صاحبان اور عدالتی عملہ غیر اخلاقی سرگرموں میں بھی ملوث پایا جاتا ہے عالمی ادارہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول اف لا انڈیکس کے مطابق اس وقت پاکستان دنیا کے 142 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر گنا گیا ہے پاکستان سمیت 78 فیصد ممالک ایسے بھی ہیں جن میں گزشتہ سات سالوں سے انصاف کی فراہمی میں فیل رہے ہیں انڈیکس کے مطابق ساؤتھ ایشیا کے چھ میں سے پاکستان پانچویں نمبر پر انصاف کی فراہمی کے لیے موجود ہے جبکہ سول جسٹس میں دنیا کے 142 ممالک میں 129 کریمنل جسٹس میں 142 ممالک میں سے 99 اور بدقسمتی سے ارڈر اینڈ سیکیورٹی کے حوالے سے دنیا کے 142 ممالک میں سے 141 ویں نمبر پر جا پہنچا ہے عالمی یوم انصاف کے دن چیف جسٹس اف پاکستان نے جوڈیشل جسٹس کے لیے خصوصی اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے غالبا 19 جولائی کو متوقع ہے جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے کہ کس طرح جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہو سکے اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی انصاف کی فراہمی کے لیے خلفائے راشدین جیسے کردار رکھنے والے ججز تعینات ہوں وگرنہ اس وقت صورتحال تو یہ ہے کہ ہم ائے روز سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں جج صاحبان اور جوڈیشل انتظامیہ مزے مار رہی ہے اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فل فور اعلی سطح پر جوڈیشل ریفارمز کیے جائیں نیک اور محنتی جج صاحبان کو تعینات کیا جائے اور کیسز کی نمٹانے کے لیے ٹائم بانڈ کیا جائے غلط اور عادی ملزمان جو صرف عدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے مقدمہ دائر کرتے ہیں ان کے کیسز خارج ہونے کے بعد انہیں جرمانے عائد کیے جائیں سول کورٹس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے سیشن جج صاحبان سول کورٹس میں چھاپے مارے کارکردگی کے حامل جج صاحبان کو شاباش اور ناقص کارکردی کردگی دکھانے والے ججوں کے خلاف جوڈیشل کاروائی کی جائے ان چند کاموں کی وجہ سے پاکستان دنیا کے 142 ممالک میں سر دست 130 میں نمبر سے زیادہ اچھی رینکنگ میں آ سکتا ہے
شیخ عزیز الرحمن