جنگلات کا عالمی دن: نعرے نہیں، عملی اقدامات

تحریر: سعد الرحمٰن سعدی (بہاول پور)
ہر سال 21 مارچ کو "جنگلات کا عالمی دن” منایا جاتا ہے تاکہ دنیا کو جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کی ضرورت کا احساس دلایا جا سکے۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں، ایک طرف درخت لگانے کی مہم چلاتے ہیں، سوشل میڈیا پر شجرکاری کی تصویریں لگاتے ہیں، اور دوسری طرف انہی درختوں کو کاٹ کر اپنی ترقی کی راہ میں "رکاوٹیں” ہٹانے کا جشن بھی مناتے ہیں۔ ہمارے شہروں میں سڑکیں چوڑی کرنے، ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے، اور صنعتوں کو پھیلانے کے لیے درختوں کا صفایا کیا جاتا ہے، اور پھر انہی کٹی ہوئی جگہوں پر شجرکاری کی تختیاں لگانے کے لیے ایک تقریب منعقد کر لی جاتی ہے۔
جنگلات محض سرسبز و شاداب زمین کے ٹکڑے نہیں بلکہ یہ قدرت کے وہ انمول اثاثے ہیں جو زمین کے پھیپھڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کم از کم 25 فیصد علاقے پر جنگلات ہوں، مگر پاکستان میں یہ شرح بمشکل 5 فیصد تک پہنچتی ہے، اور وہ بھی سرکاری کاغذات میں! حقیقت میں جنگلات ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ کنکریٹ کے جنگل بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی بڑی وجوہات میں بے قابو شہری آبادی، غیر قانونی لکڑی کی تجارت، اور زرعی زمین میں اضافے کا جنون شامل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ماحول کو بچانے کے لیے قوانین سخت سے سخت کیے جا رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں جنگلاتی زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں، اور حکومت کی طرف سے لگائے گئے پودے دیکھ بھال کے بغیر سوکھ جاتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر سال لاکھوں درخت لگانے کے اہداف پورے کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کی دیکھ بھال کا کوئی نظام موجود نہیں۔ بیشتر شجرکاری مہمات محض فوٹو سیشنز تک محدود رہ جاتی ہیں، اور جو پودے لگائے جاتے ہیں، وہ مناسب پانی اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہر درخت لگانے والے کو اس کی ذمہ داری سونپی جائے اور مقامی سطح پر ایسے نظام بنائے جائیں جو ان درختوں کی پرورش کو یقینی بنائیں۔ اگر دنیا میں جنگلات کی حفاظت اور بحالی کی کامیاب مثالیں دیکھی جائیں تو بھارت میں "گرین انڈیا مشن” اور چین میں "گریٹ گرین وال” منصوبے سے کافی مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ چین نے صحرائی علاقوں کو سرسبز بنایا، جبکہ بھارت نے اپنے جنگلات کے رقبے میں نمایاں اضافہ کیا۔ دوسری طرف پاکستان میں "بلین ٹری سونامی” جیسے منصوبے ضرور شروع کیے گئے، مگر ان کا حقیقی اثر کیا رہا، یہ ایک الگ بحث ہے۔
شہری جنگلات اور "میاواکی” جنگلات جیسے جدید تصورات بھی جنگلات کے تحفظ میں مدد دے سکتے ہیں۔ میاواکی طریقہ کار میں درختوں کو قدرتی جنگلات کی طرز پر کثرت سے لگایا جاتا ہے، جو نہ صرف تیزی سے بڑھتے ہیں بلکہ مقامی ماحولیاتی نظام کو بھی بحال کرتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بڑے شہروں میں میاواکی جنگلات کو فروغ دیا جائے تو یہ آلودگی کم کرنے، درجہ حرارت متوازن رکھنے اور حیاتیاتی تنوع کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ جنگلات کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے عام آدمی کو اس کا حصہ دار بنانا ہوگا۔ اگر مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا جائے، ان کو مالی فوائد دیے جائیں، اور انہیں جنگلات کے تحفظ کا براہِ راست فائدہ محسوس ہو، تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ دوسرا قدم سخت قانون سازی ہے، جس کے بغیر ہر شجرکاری مہم محض ایک تصویری مہم بن کر رہ جاتی ہے۔ غیر قانونی درختوں کی کٹائی اور جنگلات پر قبضے کو جرم قرار دے کر سخت سزائیں دینی ہوں گی۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرون، مصنوعی ذہانت، اور سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی کو بڑھایا جائے تاکہ جنگلات کا ڈیٹا ریئل ٹائم میں حاصل ہو سکے۔
معاشی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو جنگلات ملکی معیشت میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لکڑی کی صنعت، شہد کی پیداوار، اور جڑی بوٹیوں کی تجارت ایک منافع بخش سیکٹر بن سکتا ہے، بشرطیکہ اسے پائیدار بنیادوں پر چلایا جائے۔ سیاحت کے لحاظ سے بھی شمالی پاکستان کے حسین جنگلات غیر ملکی سیاحوں کو متوجہ کر سکتے ہیں، مگر تب جب یہ جنگلات باقی رہیں گے۔ ہمارے مذہب میں درخت لگانے کو نیکی اور صدقۂ جاریہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے کہ "جو شخص درخت لگاتا ہے اور اس سے انسان یا جانور فائدہ اٹھاتے ہیں، تو یہ اس کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔” مگر ہم نے اپنی سہولت کے لیے سب کچھ بھلا دیا ہے۔ اصل مسئلہ نیت کا ہے۔ درخت لگانے کی سالانہ مہمات، فوٹو سیشن، اور تقاریر سب اپنی جگہ، مگر جب تک عملی اقدامات نہیں ہوں گے، جنگلات کا تحفظ ممکن نہیں۔ ترقی ضرور کریں، لیکن ایسی کہ ہماری آنے والی نسلوں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی بوتلیں نہ خریدنی پڑیں!