Advertisements

خواتین کی شمولیت: ترقی اور شفاف صحافت کی بنیاد

Advertisements

2025اداریہ — 3 ستمبر


پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں مگر فیصلہ سازی، صحافت اور نمائندگی کے بیشتر میدانوں میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیہی پاکستان، جہاں ملک کی 65 فیصد سے زائد آبادی مقیم ہے، اس صورتحال کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ جاگیردارانہ اور قبائلی سوچ کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندی نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں خواتین کے مسائل دب کر رہ جاتے ہیں۔ خاص طور پر صحافت کے میدان میں خواتین کی غیر موجودگی ان مسائل کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔

Advertisements

دیہی علاقوں میں خواتین صحافیوں کی کمی کے باعث گھریلو تشدد، زبردستی کی شادیاں، ونی، غیرت کے نام پر قتل اور وراثتی حقوق کی پامالی جیسے سنگین مسائل شائع ہی نہیں ہو پاتے۔ مرد صحافی اکثر سماجی دباؤ یا ثقافتی رکاوٹوں کے باعث ان موضوعات پر قلم اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والی بڑی خلاف ورزیاں عوام کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، یوں معاشرہ ایک خاموش ناانصافی کا شکار رہتا ہے۔

خواتین کی شمولیت صرف اس لیے ضروری نہیں کہ وہ خواتین کے مسائل کو بہتر طور پر اجاگر کر سکیں بلکہ اس لیے بھی کہ معاشرے کی نصف آبادی کے بغیر صحافت اور ترقی ادھوری ہے۔ بااختیار خواتین ہی وہ قوت ہیں جو صحافت کو توازن، شفافیت اور انسانی ہمدردی کا زاویہ دے سکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں خواتین نے میڈیا میں بھرپور کردار ادا کر کے نہ صرف صنفی انصاف کو آگے بڑھایا بلکہ قومی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی خواتین کو دیہی سطح پر صحافت میں شامل کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہی خواتین کے لیے میڈیا اسکالرشپ اور پروفیشنل ٹریننگ کے مواقع فراہم کرے۔ میڈیا ہاؤسز کو خواتین کے لیے محفوظ اور سازگار ماحول تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ بلا خوف و خطر رپورٹنگ کر سکیں۔ سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں پر بھی لازم ہے کہ وہ خواتین کی صحافت میں شمولیت کے لیے مہمات اور آگاہی پروگرامز چلائیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی نصف آبادی کو خاموش رکھ کر ترقی کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ خواتین کو بااختیار بنا کر ہی ہم انصاف پر مبنی ایک ایسا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں جو نہ صرف ترقی یافتہ ہو بلکہ صحافتی شفافیت کا بھی علمبردار ہو۔