لیاقت پور میں تجاوزات کے خلاف مہم ناکام کیوں، ناقص گورننس یا سیاسی دباؤ ؟

تحریر: وحید رشدی
وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر زوروشور سے شروع ہونے والی انسداد تجاوزات مہم ضلع رحیم یارخان میں تو ٹھنڈی پڑ چکی ہے گزشتہ دو ماہ سے اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے- لیاقت پور میں دکانوں کے آہنی شیڈ اور چھپرے اتارنے یا کچی منڈی میں سرکاری اراضی پر بنی چند دکانیں گرائے کے سوا کوئی خاطر خواہ کام ہوتا نظر نہیں آیا، شہر سمیت تحصیل بھر میں کمرشل و رہائشی علاقوں اور قصبات و مواضعات کو جانے والی سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار یے
پرانی آبادیوں کے ساتھ ساتھ نئی کالونیوں اور مارکیٹوں میں تجاوزات کا جنگل قائم ہے یہاں کے رہائشیوں نے تنگ و کشادہ گلیوں میں لیٹرین، گیراج، برآمدے اور تھڑے بنا کر راستے مسدود کر رکھے ہیں، سینکڑوں لوگوں نے اپنے گھروں کے سامنے موجود 6 سے 25 فٹ سرکاری جگہوں پر قبضہ جما رکھا ہے، اور یہ بیماری قدیم آبادیوں کے ساتھ ساتھ جدید اور پوش رہائشی علاقوں میں زیادہ شدت سے بڑھی ہے بدقسمتی یہ کہ کئی بااثر افراد نے بلدیہ اہلکاروں کی ملی بھگت اور چمک کے زور پر عدالتوں کے ذریعے گرین بیلٹس کی رجسٹریاں بھی کروا لی ہیں جو کہ قانونی طور پر ممکن ہی نہیں تھیں ان اراضیات پر تعمیرات کی وجہ سے مصروف ترین سڑکیں سکڑ کر رہ گئی ہیں حکومت چاہے بھی تو ضرورت کے تحت ان سڑکوں کو کشادہ نہیں کر سکتی ان غیر قانونی قبضوں کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے، کئی قبضہ گیروں نے سیوریج لائنوں پر بھی تجاوزات کھڑی کر دی ہیں جن کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے شہر بھر میں آئے روز گٹر ابلتے رہتے ہیں، رہی سہی کسر بازاروں اور مارکیٹوں میں دکانداروں، ریڑھی و پھٹہ مافیا نے پوری کر رکھی ہے ہر دکاندار نے اپنا سامان 10 سے 15 فٹ تک باہر سجایا ہوتا ہے بیشتر نے اپنی دکان کے سامنے والی سرکاری جگہوں پر بھاری کرایہ جات کے عوض ریڑھیاں اور سٹال لگوا رکھے ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک تو ایک طرف پیدل چلنا بھی محال ہے خاص طور خواتین اور بزرگوں کو شدید مشکلات اور بدتہذیبی کا سامنا رہتا ہے، انتظامیہ نے تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر بازاروں میں تمام دکانوں کے شیڈ اور چھپر تو اتروا دیئے مگر بازاروں کے بیچوں بیچ کھڑے ریڑھی و پھٹہ مالکان نے سایہ کے نام پر بانس اور کپڑوں کے وسیع و عریض شیلٹر بنا لیئے ہیں جس پر یہاں سے گزرنے والے لوگ مزید پریشان ہو رہے ہیں
لیاقت پور شہر جو ایک باقاعدہ اور شاندار نقشے کے مطابق بسایا گیا تھا ان تجاوزات کی وجہ سے بدصورت ترین ہوتا نظر آ رہا ہے شہری حدود کے علاوہ مضافات کو جانے والی شاہراہوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے چکوک اور بستیوں کے اندر بھی لوگوں نے قبضے جما رکھے ہیں، سوال یہ ہے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر شروع ہونے والی تجاوزات کے خاتمہ کی یہ مہم اچانک کیوں روک دی گئی، جن لوگوں کی تعمیرات ناجائز و غیر قانونی قرار دے کر گرا دی گئیں ان کا کیا قصور تھا اور اسی نوعیت کی دیگر تعمیرات کو ہاتھ تک نہ لگایا گیا ان میں کون سی کوالٹی اور اچھائی تھی؟ گورننس کا یہ دوہرا معیار کیوں؟ ویسے بھی عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیر اعلی کے ہر حکم کو ان کا ویژن قرار دے کر ماردھاڑ کرکے فوٹو سیشن کروانے والی بیوروکریسی اس ویژن کو بیچ چوراہے چھوڑ چھاڑ کر کسی نئے منترے کے پیچھے بھاگ کھڑی ہوتی ہے، جب سے وزیراعلی مریم نواز شریف نے تخت پنجاب سنبھالا ہے ان کے بغیر مشاورت و ٹھوس منصوبہ بندی کیئے گئے فیصلوں اور احکامات پر عملدرآمد ہمیشہ ادھورا ہی رہا ہے،
موجودہ مہم کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں کیا اسے دانستہ روک دیا گیا ہے جو بھی وجہ ہے ایک بات تو طے شدہ ہے کہ اب تجاوزات مافیا کے حوصلے یقینی طور بڑھیں گے اس عمل اور قبضہ گیری کا رجحان زیادہ شدومد سے بڑھے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات مافیا سے مستقل بنیادوں پر نجات حاصل کرنے کے لیئے بلا امتیاز کارروائی کی جائے اور کسی قسم کے سیاسی پریشر کو خاطر میں نہ لایا جائے، گرین بیلٹس پر بلدیہ اہلکاروں اور آفیسرز کی ملی بھگت سے ہونے والی غیر قانونی عدالتی رجسٹریاں منسوخ کروا کر وہاں کی تجاوزات نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر گرائی جائیں بلکہ ان کے مالکان سے گزشتہ ادوار کا کرایہ بھی وصول کیا جائے، اس ملی بھگت میں شامل تمام افسران و اہلکاران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے