Advertisements

واقعہ کربلا کا پس منظر

Roza Hazrt Imam Hussain (RA)
Advertisements

تحریر :علامہ احمد علی محمودی

واقعۂ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک دلخراش اور اہم واقعہ ہے جو 10 محرم الحرام 61 ہجری (680 عیسوی) کو پیش آیا۔ اس واقعہ کا مرکزی کردار حضرت امام حسینؓ ، جو نواسۂ رسول ﷺ اور حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے تھے۔ واقعۂ کربلا کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب یزید بن معاویہ نے خلافت پر زبردستی قبضہ کیا اور اپنی حکومت کے لیے تمام مسلمانوں سے بیعت لینا شروع کی۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس کو اسلامی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے۔ امام حسینؓ حق ، عدل ، شریعت اور خلافتِ راشدہ کی بقا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ حضرت امام حسینؓ اپنے خاندان اور چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے ، مگر راستے میں کربلا کے مقام پر یزیدی فوج نے ان کا راستہ روک لیا ۔ کئی دن کے محاصرہ اور پانی بند کرنے کے بعد 10 محرم کو امام حسینؓ اور ان کے تقریباً 72 ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔یہ واقعہ صرف ایک جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک واضح فرق اور ایک ایسی قربانی ہے جو قیامت تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔
حق و باطل کی پہچان کا معیار :
واقعہ کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ باطل کے سامنے خاموشی اختیار کرنا ظلم کی تائید کے مترادف ہے ۔ امام حسینؓ اور اُن کے اہل بیت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ان کا مقصد حق پر مبنی تھا، جبکہ یزید کی بڑی فوج باطل کی نمائندہ تھی ۔ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ حق پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے ، چاہے دنیاوی نتائج کچھ بھی ہوں ۔
قربانی اور صبر کی اعلیٰ مثال :
حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہلِ بیت نے شدید بھوک ، پیاس ، اور ظلم و ستم کے باوجود صبر و استقلال کا دامن نہ چھوڑا ۔ امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے جان ، خاندان، مال ، حتیٰ کہ بچوں کی قربانی دے کر اسلام کی سچائی کو زندہ رکھا ۔ یہ واقعہ صبر و استقامت کی ایسی مثال ہے جو ہمیں ہر آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔
ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام :
واقعۂ کربلا اسلام کی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جو ہمیں ہر دور میں حق و صداقت کے لیے قربانی دینے اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق دیتا ہے ۔ امام حسینؓ نے یزید کے باطل نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے حق کا پرچم بلند کیا ۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب دینِ اسلام اور عدل و انصاف خطرے میں ہوں ، تو مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر قیمت پر سچائی کا ساتھ دے ۔ کربلا کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے کہ ظلم ، ناانصافی اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کا تقاضا ہے ۔ واقعہ کربلا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے سامنے جھکنا نہیں ، بلکہ حق پر قائم رہنا ہی حقیقی عظمت ہے ۔ امام حسینؓ نے باطل حکومت کے ساتھ بیعت نہ کر کے یہ اعلان کیا کہ مسلمان ظلم کے خلاف آواز بلند کرے ، چاہے اس کے لیے جانوں ہی کا نذرانہ کیوں نہ پیش کرنا پڑے ۔
اللہ پر مکمل توکل کا سبق :
توکل کا مطلب ہے کہ انسان اپنی تمام تر امیدیں اور بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھے ، چاہے حالات کچھ بھی ہوں ۔ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا ہی اصل توکل ہے ۔ امام حسینؓ جانتے تھے کہ یزید کی حکومت خلافِ شریعت ہے ، مگر انہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے حق پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ امام حسینؓ کے پاس وسائل کم تھے ، ساتھی کم تھے ، اور دشمن طاقتور تھا ۔ مگر ان کا بھروسہ اللہ کی ذات پر تھا ، نہ کہ کسی دنیاوی طاقت پر ۔ کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے بھوک ، پیاس اور ظلم برداشت کیا ، مگر ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہ آیا ۔ یہ مکمل رضا اور توکل کی علامت ہے ۔ امام حسینؓ نے دنیا کی وقتی کامیابیوں کو ٹھکرا کر اللہ کی رضا کو ترجیح دی ۔ یہی اصل توکل ہے – کہ ہم اپنے فیصلے اللہ کی خوشنودی کے مطابق کریں ، چاہے دنیا اسے ناکامی سمجھے ۔ واقعہ کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان ، صبر ، اور توکل وہ ہتھیار ہیں جو ہر دور کے یزید کے خلاف لڑنے کے لیے کافی ہیں ۔ کربلا کا واقعہ مسلمانوں کو دین کی اصل روح یاد دلاتا ہے ۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے ۔
نماز اور عبادت کی اہمیت :
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک ایسا درخشاں باب ہے جو اللہ کی عبادت و بندگی کے اعلیٰ ترین معیار سکھاتا ہے۔ اس واقعے میں امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے شدید ترین حالات میں بھی نماز اور عبادت کو ترک نہیں کیا ، بلکہ اسے مقدم رکھا ، جو ہمیں اس کی اہمیت کا عملی سبق دیتا ہے ۔ کربلا کے میدان میں دشمنوں کے نرغے اور پیاس کی شدت کے باوجود امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز قائم کی ۔ امام نے عاشورا کے دن ظہر کی نماز ادا کی ، حالانکہ سامنے موت کھڑی تھی ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نماز صرف امن و سکون کے وقت نہیں ، بلکہ ہر حال میں فرض ہے ۔ کربلا میں موجود ہر فرد کا اللہ سے تعلق اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر عبادت کو ترجیح دی ۔ امام زین العابدینؓ ، جو اس وقت بیمار تھے ، ان کی عبادت کی حالت اور دعائیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ❝مشکل ترین حالات میں بھی بندگی ہی انسان کی اصل پہچان ہے ۔ واقعہ کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ نماز کو کبھی ترک نہ کیا جائے ، چاہے حالات کیسے بھی ہوں ۔ اللہ سے تعلق کو ہر حال میں مضبوط رکھا جائے ۔ عبادت ہی انسان کو دنیاوی آزمائشوں میں ثابت قدم رکھتی ہے ۔ امام حسینؓ کی زندگی کا پیغام یہی ہے کہ نماز کسی حال میں نہیں چھوڑنی چاہیے ، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ۔
وفاداری اور اخلاص کی بہترین تصویر :
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اور دل سوز واقعہ ہے جو وفاداری ، اخلاص ، قربانی اور حق پر قائم رہنے کی لازوال مثال بن چکا ہے ۔ امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں نے یزیدی ظلم اور باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے وفاداری اور اخلاص کی جو مثال قائم کی ، وہ رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ امام حسینؓ کے 72 ساتھیوں نے جانتے بوجھتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا ، لیکن حق کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ ان کا اخلاص اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب حضرت مسلم بن عقیل ، حضرت حبیب بن مظاہر ، حضرت قاسم بن حسنؓ اور حضرت علی اکبرؓ جیسے جوانوں نے امام حسینؓ کے ساتھ کمال وفاداری نبھائی ۔ حضرت عباس علمدارؓ کی وفاداری اور وفا شعاری کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ انہوں نے اپنی جان دے دی لیکن امام حسینؓ کے حکم کے بغیر پانی نہیں پیا اور خیموں تک پانی لے جانے کی کوشش میں شہید ہو گئے ۔ واقعہ کربلا صرف ایک جنگ نہیں ، بلکہ یہ وفاداری اور اخلاص کا ایسا پیغام ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ حق کے راستے میں ہر قربانی قبول ہے ۔
امام حسینؓ کا کردار :
امام حسینؓ کا کردار واقعہ کربلا میں حق ، صبر ، قربانی ، اور اسلام کی اصل روح کے دفاع کی روشن مثال ہے ۔ انہوں نے ظالم و جابر حکمران یزید کی بیعت سے انکار کر کے حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ امام حسینؓ نے اپنے جانثار ساتھیوں سمیت اپنی جان قربان کر دی لیکن دین اسلام کی عزت و حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا ۔ امام حسینؓ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ باطل کے خلاف کھڑا ہونا ایمان کا تقاضا ہے ، چاہے اس کے لیے جان کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔امام حسینؓ کا کردار رہتی دنیا تک مظلوموں کے لیے حوصلہ ، حق پر قائم رہنے والوں کے لیے مثال ، اور مسلمانوں کے لیے غیرتِ ایمانی کا پیغام ہے ۔
کربلا کا پیغام نوجوانوں کے لیے :
واقعۂ کربلا میں امام حسینؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی قربانیاں صرف ایک مخصوص دور یا قوم کے لیے نہیں تھیں ، بلکہ یہ ہر زمانے کے انسانوں ، خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ایک عظیم سبق اور روشن چراغ ہیں ۔ کربلا کا پیغام نوجوانوں کو اپنے کردار کو سنوارنے اور بااصول زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے ۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ عظیم مقاصد کے حصول کے لیے اپنی خواہشات ، آرام ، حتیٰ کہ جان تک کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔ آج کے نوجوان بھی اگر امت کی فلاح چاہتے ہیں تو انہیں خود غرضی چھوڑ کر ایثار کا راستہ اپنانا ہوگا ۔ امام حسینؓ نے ظلم و جبر کے نظام کو للکارا ۔ نوجوانوں کو بھی سماج میں ناانصافی ، کرپشن ، اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ کربلا صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک مکمل درسگاہ ہے جو نوجوانوں کو عزم ، حوصلہ ، سچائی ، تقویٰ اور قربانی کا سبق دیتی ہے ۔ اگر آج کا نوجوان امام حسینؓ کے پیغام کو دل سے اپنا لے تو وہ نہ صرف اپنی زندگی سنوار سکتا ہے بلکہ امت کی قیادت کا بھی اہل بن سکتا ہے ۔
خواتین کا کردار :
واقعۂ کربلا ، اسلامی تاریخ کا ایک المناک اور عبرتناک واقعہ ہے ، جو صرف مردوں کی شجاعت و قربانی کا نہیں بلکہ خواتین کے حوصلے ، صبر ، استقلال اور پیغامِ حق رسانی کا بھی مظہر ہے ۔ اس واقعے میں خواتین کا کردار نہایت اہم اور مؤثر رہا ۔ حضرت زینبؓ کا کردار واقعہ کربلا میں سب سے نمایاں ہے ۔ انہوں نے امام حسینؓ کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا کا سفر کیا ۔ کربلا میں بھائیوں ، بھتیجوں ، بیٹوں اور عزیزوں کی شہادت کے باوجود صبر و استقامت کی عظیم مثال بنیں ۔ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد اسیر ہو کر کوفہ و شام لے جائی گئیں ، مگر ہر مقام پر ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہی ۔ خطباتِ زینبؓ نے یزید کے ظلم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور واقعہ کربلا کو ہمیشہ زندہ رکھا ۔ ان کا کردار خواتین کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے ۔
کربلا ایک زندہ تحریک :
امام حسینؓ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کی قربانیوں نے کربلا کو ایک ’’ زندہ تحریک ‘‘ میں تبدیل کر دیا ، جو آج بھی دنیا بھر میں مظلوموں کو حوصلہ ، جرات اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا درس دیتی ہے ۔ امام حسینؓ کا "absolutely not ” کہنا ایک زندہ انقلاب ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموشی جرم ہے ۔ کربلا کا پیغام صرف سن 61 ہجری تک محدود نہیں بلکہ یہ قیامت تک زندہ رہے گا ۔ ہر زمانے میں امام حسینؓ کے چاہنے والے ان کے راستے پر چل کر دنیا کو عدل ، مساوات اور قربانی کا پیغام دیتے رہیں گے ۔

Advertisements