اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

وائس چانسلرز کی تعیناتی کا تنازع: گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب آمنے سامنے

Governor Salim Haider and cM Maryam awaz

وائس چانسلرز کی تعیناتی پر گورنر کو جس پر اعتراض تھا مسترد کر سکتے تھے، گورنر اپنا وائس چانسلر لگوانا چاہتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز

ایک شخص کا نام بتا دیں جو میں نے دیا ہو، وائس چانسلرز کے ناموں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، وائس چانسلر وہ بنیں جو بچوں کو ایک قوم بنا سکیں۔ گورنر پنجاب

لاہور:  پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے معاملے پر وزیر اعلیٰ اور گورنر کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا، دونوں رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے بیانات بھی سامنے آ گئے ہیں ہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی پر گورنر کو جس پر اعتراض تھا مسترد کر سکتے تھے، گورنر اپنا وائس چانسلر لگوانا چاہتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کی تعیناتی پر سارا معاملہ پنجاب یونیورسٹی کا ہے، میرٹ اور شفافیت پر وائس چانسلرز لگائے ہیں، ہر کام میرٹ پر کر رہی ہوں، سفارش بہت آتی ہیں، ایم این اے اور ایم پی اے سب سفارش لاتے ہیں، میں کسی کی بھی نہیں سنتی، صبح 9 بجے سے رات 12 بجے تک میں کام کرتی ہوں۔  مریم نواز کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں رشوت کے خاتمے کیلئے یونیفارم کے ساتھ کیمرے لگا رہے ہیں، کوئی بھی پولیس اہلکار اس یونیفارم کے بغیر ڈیوٹی نہیں کرے گا، کالجز یونیورسٹیز میں منشیات کی روک تھام کیلئے بڑے بڑے گینگ پکڑے گئے ہیں، بڑے گینگز اپنے ذاتی جہازوں پر مختلف شکلوں میں منشیات لا کر بیچتے تھے۔  وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ کلینکس آن ویلز سے دیہی جگہوں پر سیکڑوں افراد مستفید ہو رہے ہیں، کسان کارڈ اور ٹریکٹر جب لانچ ہوا لاکھوں لوگوں نے فوری اپلائی کیا۔  دوسری جانب گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے مریم نواز کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی کے معاملے پر میرا کوئی جھگڑا یا لڑائی نہیں ہے، میری خواہش ہے کہ عہدوں پر اچھے لوگ تعینات ہوں۔  ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص کا نام بتا دیں جو میں نے دیا ہو، وائس چانسلرز کے ناموں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، وائس چانسلر وہ بنیں جو بچوں کو ایک قوم بنا سکیں۔  گورنر پنجاب نے مزید کہا کہ کسی کی جرات نہیں ہے کہ وہ مجھے دو کروڑ کیا دو روپے بھی بھیجے، کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے، حکومتی کشتی ڈوبے یا تیرتی رہے دونوں صورتوں میں اُن کے ساتھ ہیں۔

مزید پڑھیں