امریکی صدر جو بائیڈن نے پہلی بار غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ‘روکنے’ کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک تقریب سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسرائیل کو غزہ میں اپنی ‘جنگ’ کو عارضی طور پر روکنا چاہیے۔
تقریب کے دوران ایک فرد کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیے جانے پر انہوں نے کہا کہ ‘میرے خیال میں جنگ میں عارضی وقفے کی ضرورت ہے
جب ان سے پوچھا گیا کہ وقفے سے کیا مراد ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ قیدیوں کو رہا کرانے کا وقت ہوگا
امریکی صدر نے حماس کی قید میں موجود اسرائیلی افراد کا حوالہ دیا تھا جبکہ وہ اس وقفے کے دوران غزہ میں موجود تمام امریکی شہریوں کا انخلا بھی چاہتے ہیں
امریکی صدر کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کے مؤقف میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس اس سے قبل کہتا رہا تھا کہ ہم اسرائیل کو ہدایات نہیں دیتے کہ فوجی آپریشن کس طرح کرنا چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ہم نے اسرائیل کے لیے سرخ لکیر نہیں کھینچی، ہم ہر حال میں اس کی حمایت جاری رکھیں گے۔
امریکا ان 14 ممالک میں سے ایک ہے جن کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی کی قراردار کو مسترد کیا گیا تھا۔
امریکی صدر پر سماجی کارکنوں، عالمی رہنماؤں اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے کچھ اراکین کی جانب سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کو وحشیانہ حملوں سے روکیں، جس کے نتیجے میں اب تک 9 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 3700 بچے بھی شامل ہیں۔
جو بائیڈن کو عرب نژاد امریکی شہریوں کی شدید تنقید کا بھی سامنا ہے جو ڈیموکریٹ پارٹی کے ووٹرز ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے باعث ان کے لیے عرب نژاد امریکی شہریوں کی سپورٹ میں 17 فیصد کمی آچکی ہے۔
انہوں نے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ‘موجودہ صورتحال اسرائیل کے لیے بہت زیادہ پیچیدہ ہے، یہ صورتحال مسلم دنیا کے لیے بھی بہت زیادہ پیچیدہ ہے، میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہوں’۔
امریکی صدر کے مؤقف میں تبدیلی اس وقت بھی آئی ہے جب مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارتی اقدامات کو تیز کیا جا رہا ہے۔
امریکا نے اسرائیل کے لیے نئے سفیر کو تعینات کیا ہے اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نئے سفیر فلسطینی شہریوں کو درپیش بدترین بحران کی روک تھام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیادی پر جنگ کو عارضی طور پر روکنے کے لیے کوششیں کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ بھی 3 نومبر کو اردن اور اسرائیل کا دورہ کریں گے اور اس دورے کا مقصد غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کو بڑھانا اور شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی لانا ہے۔