پاک-امریکہ تجارتی تعلقات: ضائع ہوتا موقع یا نئی راہ؟
چھ اگست 2025
امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق مالی سال ۲۰۲۵-۲۰۲۴ میں پاک-امریکہ باہمی تجارت کا حجم نو اعشاریہ دو ارب ڈالر رہا، جس میں سے چھ اعشاریہ چار ارب ڈالر کی برآمدات پاکستان سے امریکہ کو کی گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل، تیار ملبوسات، سرجیکل آلات، چمڑا اور کھیلوں کے سامان کا تھا۔
عالمی سطح پر تحفظ پسندی کی پالیسیوں کے باوجود، امریکہ میں پاکستانی مصنوعات پر عائد اوسط درآمدی محصول انیس فیصد ہے، جو جنوبی ایشیائی ممالک جیسے بھارت (بائیس اعشاریہ تین فیصد)، بنگلہ دیش (اکیس اعشاریہ ایک فیصد) اور سری لنکا (تئیس اعشاریہ آٹھ فیصد) کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ یہ اعداد و شمار عالمی بینک کے "ٹریڈ کاسٹ ڈیٹابیس” سنہ ۲۰۲۴ سے حاصل کیے گئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق دور حکومت (۲۰۱۷ تا ۲۰۲۱) میں اگرچہ کئی ممالک پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بلکہ بھارت پر پچیس فیصد اضافی ٹیرف لاگو کیا گیا، اور حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کی جانب سے اگلے چوبیس گھنٹوں میں بھارت پر مزید تجارتی محصولات عائد کیے جانے کا امکان ہے کیونکہ بھارت نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا، جو امریکی پالیسی کے برعکس ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت تجارت ابھی تک امریکہ کے ساتھ کوئی ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے) یا آزادانہ تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) طے نہیں کر سکی۔ اس کے برعکس ویتنام اور میکسیکو جیسے ممالک نے واشنگٹن کے ساتھ مؤثر اقتصادی سفارتکاری کے ذریعے اپنی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کیا۔
امریکہ آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی انفرادی تجارتی منڈی ہے، جہاں پاکستان کی کل برآمدات کا انیس فیصد سے زائد بھیجا جاتا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز جیسے اداروں کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ مخصوص شعبوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، پر مشتمل پی ٹی اے طے پا جائے تو اگلے تین برسوں میں پاکستان کی برآمدات میں کم از کم پچیس فیصد اضافہ ممکن ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ محض امدادی پالیسی پر انحصار کرنے کے بجائے، تجارتی مواقع پر مبنی پالیسی اپنائے۔ امریکہ جیسے عالمی معاشی طاقت کے ساتھ پائیدار تجارتی معاہدات کا قیام پاکستان کی برآمدی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ اسے اقتصادی سفارتکاری کے ایک نئے باب کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق مالی سال ۲۰۲۵-۲۰۲۴ میں پاک-امریکہ باہمی تجارت کا حجم نو اعشاریہ دو ارب ڈالر رہا، جس میں سے چھ اعشاریہ چار ارب ڈالر کی برآمدات پاکستان سے امریکہ کو کی گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل، تیار ملبوسات، سرجیکل آلات، چمڑا اور کھیلوں کے سامان کا تھا۔
عالمی سطح پر تحفظ پسندی کی پالیسیوں کے باوجود، امریکہ میں پاکستانی مصنوعات پر عائد اوسط درآمدی محصول انیس فیصد ہے، جو جنوبی ایشیائی ممالک جیسے بھارت (بائیس اعشاریہ تین فیصد)، بنگلہ دیش (اکیس اعشاریہ ایک فیصد) اور سری لنکا (تئیس اعشاریہ آٹھ فیصد) کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ یہ اعداد و شمار عالمی بینک کے "ٹریڈ کاسٹ ڈیٹابیس” سنہ ۲۰۲۴ سے حاصل کیے گئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق دور حکومت (۲۰۱۷ تا ۲۰۲۱) میں اگرچہ کئی ممالک پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بلکہ بھارت پر پچیس فیصد اضافی ٹیرف لاگو کیا گیا، اور حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ کی جانب سے اگلے چوبیس گھنٹوں میں بھارت پر مزید تجارتی محصولات عائد کیے جانے کا امکان ہے کیونکہ بھارت نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا، جو امریکی پالیسی کے برعکس ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت تجارت ابھی تک امریکہ کے ساتھ کوئی ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے) یا آزادانہ تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) طے نہیں کر سکی۔ اس کے برعکس ویتنام اور میکسیکو جیسے ممالک نے واشنگٹن کے ساتھ مؤثر اقتصادی سفارتکاری کے ذریعے اپنی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کیا۔
امریکہ آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی انفرادی تجارتی منڈی ہے، جہاں پاکستان کی کل برآمدات کا انیس فیصد سے زائد بھیجا جاتا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز جیسے اداروں کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ مخصوص شعبوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، پر مشتمل پی ٹی اے طے پا جائے تو اگلے تین برسوں میں پاکستان کی برآمدات میں کم از کم پچیس فیصد اضافہ ممکن ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ محض امدادی پالیسی پر انحصار کرنے کے بجائے، تجارتی مواقع پر مبنی پالیسی اپنائے۔ امریکہ جیسے عالمی معاشی طاقت کے ساتھ پائیدار تجارتی معاہدات کا قیام پاکستان کی برآمدی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے۔