افغان صورت حال پر غور کے لیے "ٹرائیکا پلس“ کا اجلاس

Trika Plus meeting to consider the situation in Afghanistan

+اسلام آباد (نوائے احمد پور شرقیہ رپورٹ/ یوم پنج شنبہ، مورخہ 11 نومبر 2021ء) افغانستان سے متعلق “ٹرائیکا پلس” کا اجلاس جمعرات کو وزارت خارجہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سیکرٹری خارجہ سہیل محمود، افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ، روس کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف اور چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یاؤ یاؤ یانگ شریک ہوئے۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے "ٹرائیکا پلس” اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے نمائندگان خصوصی کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورت حال اور افغانستان میں ابھرتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے "ٹرائیکا پلس” کا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے جاری خون ریزی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی برادری افغان شہریوں کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ان کی فوری انسانی معاونت کو یقینی بنائے۔ شاہ محمود قریشی نے توقع ظاہر کی کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی نہیں دہرائے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہئے بلکہ کئی وجوہات کی بنا پر اس میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو، کوئی بھی دوبارہ ایسا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا، معاشی انحاط وانہدام کا بھی کوئی خواہاں نہیں، جس سے عدم استحکام بڑھے گا، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر فعال دہشت گرد عناصر سے موثر انداز سے نمٹا اور مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس صورتحال میں "ٹرائیکا پلَس” نے نمایاں اہمیت حاصل کر لی ہے۔ ہم پُراعتماد ہیں کہ "ٹرائیکا پلَس” کے نئی افغان حکومت سے امور کار، امن واستحکام کے فروغ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لئے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ عالمی مالی امداد کے نہ ہونے سے تنخواہوں کی ادائیگی تک میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، چہ جائیکہ ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت ممکن ہو سکے۔ عام آدمی بدترین قحط کے شدید اثرات کا شکار اور اس سے متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورت حال میں مزید تنزلی نئی انتظامیہ کی حکومت چلانے کی استعداد کو بری طرح محدود کردے گی۔ لہذا ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تحرک کرے۔

انہوں نے کہا کہ صحت، تعلیم اور شہری خدمات (میونسپل سروسز) کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔افغانستان کو اپنے منجمد وسائل کی رسائی سے معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کی ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی اور افغان معیشت استحکام اور پائیداری کی طرف گامزن ہو پائے گی۔ اسی طرح اقوام متحدہ اور اس کے اداروں پر زور دیا جائے کہ وہ عام افغان شہریوں تک رسائی کے طریقے تلاش کریں اور اس صورتحال میں ان کی مدد کریں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔پاکستان اور افغانستان مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتے ہیں۔ہم افغانستان کے ہر طبقہ و نسل کو ملک کی حتمی منزل کے لئے اہم تصور کرتے ہیں۔قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم نے گذشتہ چار دہائیوں میں، مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازعے اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے۔ہم موجودہ صورتحال کو اس طویل تنازعے اور لڑائی کے خاتمے کا ایک موقع گردانتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 15 اگست کے بعد سے میں نے مختلف ممالک کے اپنے متعدد ہم مناصب کی میزبانی کی۔ ہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری علاقائی پلیٹ فارم کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کی تاکہ تشویش کے مشترک نکات اور مواقعوں پر بات چیت ممکن ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بیرون ملک ان تمام رابطوں کے دوران عالمی برادری اور نئی افغان حکومت کو ہمارا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ رابطے استوار رکھے جائیں اور باہمی اتفاق سے آگے کی راہ تلاش کی جائے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ ماہ کابل کے میرے دورے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ افغانستان کی نئی حکومت کی عالمی برادری سے کیا توقعات ہیں۔ اس سے ہمیں یہ موقع بھی میسر آیا کہ طالبان قیادت کو ہم اپنی رائے سے آگاہ کریں اور عالمی برادری کی اُن سے توقعات کو اجاگر کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان رابطے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں تسلیم کرے اور ان کی مدد کرے۔لہذا یہ کلیدی امر ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں د ہرانے سے بچے اور مثبت روابط جاری رکھے۔اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے ہمارے وزیراعظم کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔