درختوں کی کٹائی اور ہماری سانسوں کا رشتہ

پاکستان کی سرزمین وہ بدنصیب دھرتی ہے جہاں درختوں کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب موسم گرما کی شدت 50 ڈگری کو چھونے لگتی ہے، ہوا سانسوں کو دھوکہ دینے لگتی ہے، اور لوگ چھاؤں کی تلاش میں تپتی سڑکوں پر بھٹکتے ہیں۔ مگر افسوس، ہمیں یہ ادراک تب ہوتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آج سے چند دہائیاں پہلے ہمارا ملک ہرا بھرا تھا۔ نہریں شفاف پانی لیے بہتی تھیں، پرندے چہچہاتے تھے، اور درخت آکسیجن کے خزانے بانٹتے تھے۔ لیکن پھر ترقی کے نام پر، ہم نے ان خزینوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ شہروں کی وسعت کے لیے درختوں کو قربان کیا گیا، اور جنگلات کو کاغذ کی صنعت، تعمیرات، اور ایندھن کے لیے صاف کر دیا گیا۔ نتیجہ؟ پاکستان میں جنگلات کی شرح جو کبھی 24 فیصد تھی، اب بمشکل 5 فیصد پر آ گئی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، خشک سالی، سیلاب، اور ہوا کی آلودگی سب ہمارے کیے کی سزا ہیں۔ کراچی ہو یا لاہور، سانس لینا اب ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی رفتار جاری رہی تو آئندہ چند دہائیوں میں ہمارا ملک صحراؤں میں بدل جائے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ پہلا قدم درختوں کی کٹائی کو روکنا ہے۔ حکومت کو سخت قوانین نافذ کرنے ہوں گے، جہاں غیر قانونی کٹائی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ دوسرا، عوامی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ درخت صرف لکڑی کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے لیے ہیں۔ تیسرا، اور سب سے اہم، نئے درخت لگانے ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کم از کم 10 ارب درختوں کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی توازن بحال ہو سکے۔ یہ کام ایک دن یا ایک سال میں ممکن نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک قومی مہم چلانی ہوگی، جس میں ہر شہری اپنا حصہ ڈالے۔ آپ اور میں، ہم سب ایک درخت لگا کر اس تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، ہر درخت صرف چھاؤں ہی نہیں دیتا، یہ زندگی دیتا ہے، ہوا کو صاف کرتا ہے، اور زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ اگر ہم نے آج اقدام نہ کیا تو کل شاید ہمارے بچے ہم سے سوال کریں گے کہ جب آپ کے پاس موقع تھا، تو آپ نے کیا کیا؟ اس لیے آئیے، مل کر عہد کریں کہ ہم نہ صرف درختوں کی حفاظت کریں گے بلکہ انہیں بڑھائیں گے۔ کیونکہ درخت نہیں تو زندگی نہیں

تحریر: نوید بلوچ