Advertisements

برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پرتگال کا فلسطین کو تسلیم کرنا—اثر و مضمرات

Advertisements

اداریہ —- 23 ستمبر 2025

دنیا کی سیاست میں بعض فیصلے تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پرتگال کی جانب سے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان اسی نوعیت کا فیصلہ ہے۔ یہ اقدام نہ صرف فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد کو اخلاقی تقویت دیتا ہے بلکہ اسرائیل کے یکطرفہ قبضے اور جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بیداری کا بھی عکاس ہے۔

Advertisements

اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی موجودہ حیثیت اس تاریخی تناظر کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ نومبر 2012 سے فلسطین کو جنرل اسمبلی میں غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ حاصل ہے، جبکہ ستمبر 2025 تک فلسطین کو 193 میں سے 151 رکن ممالک (تقریباً 78 فیصد) تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم، امریکہ جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اپنی ویٹو پاور کے ذریعے فلسطین کی مکمل رکنیت کو بار بار روک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین آج بھی اقوامِ متحدہ میں محدود حیثیت رکھتا ہے۔

فلسطینی ریاست کا اعلان 15 نومبر 1988 کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے کیا، جس نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی (بشمول مشرقی یروشلم) پر اپنی خودمختاری کا دعویٰ کیا۔ اسی برس کے اختتام تک 78 ممالک نے فلسطین کو تسلیم کر لیا تھا۔ بعد ازاں 1993 اور 1995 میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو معاہدے طے پائے، جن کے تحت فلسطینی انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا، لیکن اسرائیلی قیادت کی ہٹ دھرمی نے ان معاہدوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔ 2011 میں فلسطین کو یونیسکو کی رکنیت ملی، اور 2012 میں اقوامِ متحدہ نے جنرل اسمبلی میں قرارداد 67/19 کے ذریعے مبصر ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا۔

برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک کا حالیہ فیصلہ فلسطین کے لئے اس تاریخی جدوجہد کا ایک نیا موڑ ہے۔ یہ ممالک اقوام متحدہ کی بڑی طاقتیں ہیں، اور ان کے فیصلے سے عالمی سیاست میں فلسطین کے حق میں نئی لہر ابھر سکتی ہے۔ خاص طور پر برطانیہ کا فیصلہ علامتی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ فلسطین کے مسئلے کی جڑیں برطانوی مینڈیٹ سے منسلک رہی ہیں۔

تاہم اسرائیل نے ان فیصلوں کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں کسی فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ اعلان اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اسرائیل امن عمل کو مزید تعطل کا شکار کرنے کے لئے پرعزم ہے اور کسی بھی دو ریاستی حل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔

یقیناً اس پیش رفت پر امریکہ اور چند یورپی اتحادی اسرائیل کے موقف کے ساتھ کھڑے ہوں گے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی دنیا کے اندر عوامی رائے اب بدل رہی ہے۔ یورپی ممالک میں کئی حکومتیں اور عوام اسرائیلی جارحیت کو کھل کر چیلنج کر رہے ہیں۔ فرانس نے بھی ستمبر 2025 تک فلسطین کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا ہے، جو اس دباؤ کو مزید بڑھا دے گا۔

پاکستان کے لئے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنی سفارتی حکمت عملی کو زیادہ متحرک کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ میں مضبوط آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی حکومتوں اور عوامی حلقوں سے روابط بڑھانے ہوں گے تاکہ مزید ریاستوں کو فلسطین کی حمایت پر آمادہ کیا جا سکے۔

یہ فیصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو اب مزید دبایا نہیں جا سکتا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد وہ دن آئے گا جب فلسطین ایک مکمل خودمختار ریاست کے طور پر اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرے گا۔