پہلگام واقعہ، بھارتی جارحیت اور عالمی قانون کی آزمائش
اداریہ —– 21 دسمبر 2025
اقوامِ متحدہ کی خصوصی رپورٹ نے ایک بار پھر اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی ہے کہ پہلگام واقعے میں پاکستان کا کوئی کردار ثابت نہیں کیا جا سکا، جبکہ بھارت نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈالا بلکہ عالمی قانون، اقوامِ متحدہ چارٹر اور بین الاقوامی معاہدات کی کھلی خلاف ورزی بھی کی۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارت کا نام نہاد آپریشن ’’سندور‘‘ غیر قانونی تھا اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت سلامتی کونسل کو بروقت باضابطہ اطلاع دینا لازم تھا، جو بھارت نے نہیں دی۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق پیشگی اطلاع نہ دینا عالمی طریقۂ کار کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا، مساجد متاثر ہوئیں اور بے گناہ شہری جانوں کے ضیاع کا سامنا کرنا پڑا، جو بین الاقوامی انسانی قانون اور حقِ زندگی کی سنگین پامالی ہے۔ رپورٹ میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کا کوئی الگ یا خصوصی حق بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا۔
خصوصی ماہرین نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ 7 مئی 2025 کو پاکستان نے بھارتی کارروائی کی فوری اور دوٹوک مذمت کی اور سلامتی کونسل کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ اگر بھارتی اقدام کو مسلح حملہ تصور کیا جائے تو پاکستان کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس کے برعکس بھارت یہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا کہ پہلگام حملے میں پاکستان کی ریاستی سطح پر کسی قسم کی شمولیت موجود تھی۔ قابلِ اعتبار شواہد کی عدم موجودگی نے بھارتی الزامات کو محض سیاسی پروپیگنڈا ثابت کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بھارت کے سندھ طاس معاہدے سے متعلق رویے پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت نے نہ صرف ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا بلکہ معاہدے کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کر کے نیک نیتی کے اصول کو مجروح کیا۔ رپورٹ میں بھارت سے باضابطہ طور پر وضاحت، ممکنہ تلافی اور معذرت، معاہدے پر دیانت دارانہ عمل درآمد اور پانی کی رکاوٹوں سے پیدا ہونے والے انسانی نقصانات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے خصوصی ماہرین نے مودی حکومت کو ایک جامع سوالنامہ ارسال کیا ہے، جس میں بھارت سے اس کے الزامات کے ثبوت، غیر قانونی طاقت کے استعمال سے ہونے والے جانی نقصانات کا ازالہ، سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی، اور تنازع کے حل کے لیے قانونی طریقۂ کار اختیار کرنے سے متعلق واضح جوابات طلب کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت سے یہ بنیادی سوال بھی کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازع کے پرامن حل اور کشمیری عوام کو ان کا تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت دینے کے لیے کیا عملی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے بھارت کو ان تمام سوالات کے جواب دینے کے لیے 60 دن کی مہلت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ بھارتی جواب نہ صرف رپورٹ کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں گے بلکہ ہیومن رائٹس کونسل میں بھی پیش کیے جائیں گے۔ یہ پیش رفت عالمی برادری کے لیے ایک سنجیدہ امتحان ہے کہ آیا وہ طاقت کے بل پر مسلط کی گئی پالیسیوں کو قبول کرتی ہے یا بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کی بالادستی کو یقینی بناتی ہے۔
اس مرحلے پر ضروری ہے کہ عالمی ادارے محض بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ بھارت کو اس کے غیر قانونی اقدامات پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ خطے میں پائیدار امن کا راستہ یکطرفہ عسکری کارروائیوں نہیں بلکہ شفاف تحقیقات، بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کے احترام سے ہو کر گزرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ اس سمت میں ایک اہم دستاویز ہے، جسے نظر انداز کرنا نہ صرف انصاف بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنگین خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔

