Advertisements

سوشل میڈیا پر فحاشی کی یلغار – ایک فکری و سماجی المیہ

Advertisements

تاریخ: 29 جولائی 2025ء

ڈیجیٹل دور کی ترقی جہاں انسان کو دنیا سے جوڑنے کا ذریعہ بنی ہے، وہیں سوشل میڈیا کا اندھا دھند استعمال ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کو نگلنے لگا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر روز بروز بے حیائی، فحاشی اور غیر اخلاقی مواد کی بھرمار ایک تشویشناک صورتِ حال اختیار کر چکی ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل ان پلیٹ فارمز پر ایسے مواد کی جانب راغب ہو رہی ہے جو نہ صرف ان کی فکری ساخت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بن رہا ہے۔

Advertisements

سوشل میڈیا پر بعض افراد شہرت کے لالچ میں، اور کچھ پیسے کے لیے ہر حد پار کرتے جا رہے ہیں۔ فحش رقص، نیم برہنہ لباس، دوہری معنویت والے مکالمے اور ذومعنی اشارے اس حد تک عام ہو چکے ہیں کہ اب انھیں “تفریح” سمجھا جانے لگا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود یہ مواد نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری نوجوان نسل کی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

ریاستی سطح پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA)، سائبر کرائم ونگ اور دیگر ادارے اس مسئلے کے تدارک کے ذمہ دار ہیں، مگر ان کی کارکردگی ناکافی اور جزوی نظر آتی ہے۔ ٹک ٹاک جیسے ایپس پر ماضی میں عارضی پابندیاں لگائی گئیں، مگر وہ وقتی ثابت ہوئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت محض علامتی اقدامات کی بجائے مؤثر، مستقل اور غیرجانبدار پالیسی کے تحت سوشل میڈیا پر فحاشی اور عریانی کے خلاف جامع حکمتِ عملی اپنائے۔

اس کے ساتھ ساتھ والدین، اساتذہ، علما اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمے داریاں نبھانا ہوں گی۔ بچوں کی ڈیجیٹل نگرانی، تربیت اور شعور بیدار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والا اخلاقی زہر صرف انفرادی نہیں بلکہ قومی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔

آخر میں ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقیات کا گلا گھونٹا جائے؟ کیا ڈیجیٹل ترقی صرف فحاشی کے پھیلاؤ تک محدود ہے؟ اگر نہیں، تو پھر وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اپنی حیثیت میں اس یلغار کا راستہ روکیں، قبل اس کے کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر اقدار سے محروم ہو جائے۔