ڈان ٹی وی کے صحافی خاور حسین کی پراسرار موت اور انصاف کا امتحان
اداریہ – 19 اگست 2025
سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے ڈان نیوز ٹی وی کے صحافی خاور حسین کی اچانک اور پراسرار موت نے نہ صرف صحافتی برادری کو افسردہ کیا ہے بلکہ کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ان کی لاش دو روز قبل ایک گاڑی سے ملی جس کے بعد ابتدائی تفتیش میں یہ تاثر سامنے آیا کہ انہوں نے خودکشی کی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان کے سر میں لگی گولی ان ہی کے لائسنس یافتہ پستول سے چلائی گئی، تاہم مرحوم کی اہلیہ ڈاکٹر شازیہ بلوچ نے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے قتل قرار دیا ہے۔
ادھر سول اسپتال حیدرآباد میں خاور حسین کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ پولیس سرجن ڈاکٹر وسیم خان کے مطابق لاش پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا اور حتمی رپورٹ آنے سے پہلے نہ تو خودکشی اور نہ ہی قتل کے بارے میں کوئی رائے دی جا سکتی ہے۔ میڈیکل بورڈ کے ماہرین نے ضروری نمونے لے لیے ہیں جن کی بنیاد پر آئندہ چند روز میں ابتدائی رپورٹ سامنے آجائے گی۔
یہ معاملہ محض ایک فرد کی موت کا نہیں بلکہ صحافتی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی درجنوں صحافی مختلف حالات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اکثر کیسز تاحال حل طلب ہیں۔ خاور حسین کی موت اگر واقعی خودکشی ہے تو اس کے پیچھے محرکات جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا یہ جاننا کہ اگر یہ قتل ہے تو اس کے ذمہ دار کون ہیں۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ابتدائی طور پر خودکشی کا تاثر دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مرحوم کے اہل خانہ اسے قتل قرار دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں صرف شفاف، غیرجانبدار اور جلد تحقیقات ہی عوام اور صحافتی برادری کے اعتماد کو بحال کر سکتی ہیں۔
ریاست اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کیس کی غیرجانب دارانہ تفتیش کریں اور صحافی برادری کو یہ یقین دلائیں کہ ان کے تحفظ کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ خاور حسین کے کیس میں اگر شفافیت نہ دکھائی گئی تو یہ معاملہ بھی دیگر درجنوں نامکمل فائلوں کی طرح وقت کے اندھیروں میں دب جائے گا۔