Advertisements

حکومت کا پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ

Advertisements

  نو جولائی 2025 

پاکستان میں چینی کا بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں، لیکن ہر سال کی طرح اس بار بھی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، شوگر مافیا کا دباؤ، اور مفادات پر مبنی فیصلوں نے عوام کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، اور   ذخیرہ اندوزی ا نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی۔ ان حالات میں حکومت کا چینی درآمد کرنے کا فیصلہ وقتی طور پر ریلیف کی کوشش تو ہو سکتا ہے، مگر یہ ایک بڑی پالیسی ناکامی کی علامت بھی ہے۔  حکومت کا پالیسی تضاد: پہلے برآمد، اب درآمد یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ حکومت نے چند ماہ قبل شوگر مل مالکان کے مطالبے پر چینی کی برآمد کی اجازت دی، حالانکہ اس وقت بھی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اس اقدام سے مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 765,000 ٹن سے زائد چینی برآمد کی گئی، جس سے وقتی طور پر زرِ مبادلہ تو حاصل ہوا، مگر اس کے بعد اندرونِ ملک چینی کی دستیابی متاثر ہوئی اور قیمتیں بڑھتی چلی گئیں۔  اب حکومت نے بحران پر قابو پانے کے لیے چینی کی درآمد کی منظوری دے دی ہے۔ ابتدائی طور پر 500,000 ٹن ریفائنڈ چینی درآمد کی جائے گی، جبکہ مزید 250,000 ٹن خام چینی کی درآمد پر غور جاری ہے۔ یوں کل درآمدات کا حجم 750,000 ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے

Advertisements

 زرمبادلہ کا نقصان اور قیمتوں کا بوجھ برآمد کی اجازت دینے کے بعد اب چینی درآمد کرنا دراصل دوہرا نقصان ہے: ایک طرف زرمبادلہ ضائع ہوگا، دوسری طرف عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں چینی کی قیمت 190 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ درآمد سے وقتی طور پر قیمت میں کمی کی امید تو کی جا رہی ہے، لیکن درحقیقت یہ بوجھ عوام ہی پر پڑے گا، کیونکہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی، درآمدی اخراجات اور دیگر عوامل بالآخر صارف کو متاثر کرتے ہیں۔  شوگر مافیا اور حکومتی بے بسی یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ ملک میں چینی کے بحران کے پیچھے صرف پیداوار یا موسم نہیں بلکہ ایک منظم شوگر مافیا کا کردار ہے، جو مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور قیمتوں کو اپنے مفاد میں چلاتا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت ہر سال ان ہی طاقتور عناصر کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ چینی کی برآمد سے لے کر درآمد تک، ہر پالیسی فیصلہ انہی طبقات کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔

  حکومت کو چاہیے کہ وہ ردعمل پر مبنی وقتی اقدامات کے بجائے ایک مستقل، شفاف اور مربوط پالیسی اختیار کرے۔ اس کے لیے درج ذیل نکات پر سنجیدگی سے عمل کرنا ناگزیر ہے: برآمد کی اجازت صرف اس صورت میں دی جائے جب مقامی ضروریات مکمل طور پر پوری ہو چکی ہوں۔   شوگر ملز اور ڈیلرز کے گوداموں پر کڑی نگرانی اور کارروائی کی جائے۔  گنے کی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو مراعات، بیج، پانی اور مالی سہولتیں فراہم کی جائیں۔   چینی کی سپلائی، اسٹاک اور قیمتوں کے بارے میں تمام معلومات عوام کے سامنے رکھی جائیں۔  ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جن کی وجہ سے ہر سال بحران پیدا ہوتا ہے۔  چینی کا بحران محض ایک زرعی یا اقتصادی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پالیسی میں عدم تسلسل، بد انتظامی اور طاقتور طبقوں کی اجارہ داری کا مظہر ہے۔ حکومت کا حالیہ درآمدی فیصلہ ایک وقتی ریلیف ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اگر یہی رویہ برقرار رہا تو ہر سال عوام کو اسی طرح کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت فوری اور وقتی فیصلوں کے بجائے مستقبل بین پالیسی بنائے، جس میں عوامی مفاد کو اصل ترجیح حاصل ہو۔