اوچ شریف کے الشمس چوک کی کہانی: کچھ رفتگاں کی، کچھ اپنی زبانی
|تحریر: نعیم احمد ناز|
اوچ شریف شہر کا مرکزی چوراہا میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے پہلے منتخب چیئرمین مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی کی نسبت سے ‘الشمس چوک’ کہلاتا ہے۔ گیلانی صاحب جون 1959ء میں فوجی صدر ایوب خان کے وضع کردہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت اوچ شریف کو میونسپلٹی کا درجہ ملنے کے بعد پہلی مرتبہ چیئرمین منتخب ہوئے تھے، محمد اعظم خان اس وقت چیف آفیسر تھے۔ سن ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں میونسپل کمیٹی کے اراکین نے ایک قرارداد کے ذریعے مخدوم سید حامد محمد شمس الدین گیلانی کی قومی و ملی خدمات کے اعتراف اور میونسپل کمیٹی، پولیس اسٹیشن، ہائی اسکول، ریسٹ ہاؤس اور دیگر سرکاری اداروں کے لیے اپنی زیر ملکیہ اراضی وقف کرنے پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے شہر کے مرکزی چوراہے کو ‘الشمس چوک’ کا نام دیا۔
تریسٹھ سال قبل شہر کا یہ حصہ جنگل کا منظر پیش کرتا تھا۔ الشمس چوک پر ایستادہ برگد کا ایک بوڑھا درخت ہر گزرنے والے راہ گیر کو اپنی ماں سمان مہربان چھاؤں سے دعائیں دیتا۔ شہر کی ساری رونق ساری گہما گہمی محلہ بخاری اور صدر بازار کی طرف تھی۔ بلدیہ، تھانہ، ہائی اسکول، ڈاک خانہ اور دیگر تمام سرکاری ادارے محلہ خواجگان، محلہ سوڈھگان اور ہاتھی دروازے کے آس پاس تھے۔ گیلانی صاحب کی طرف سے سرکاری اداروں کے لیے زمین وقف کرنے کے بعد یہاں انفراسٹرکچر قائم ہونا شروع ہوا تو آہستہ آہستہ اس جنگل میں منگل کا سماں نظر آنے لگا۔ سٹرکوں کی توسیع اور شہری انفراسٹرکچر میں بہتری کے لیے 1966ء میں الشمس چوک پر ایستادہ درخت کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اس وقت میونسپل کمیٹی کے چیئرمین مخدوم سید غلام اکبر بخاری تھے جو تھوڑے عرصے کے لیے آئے، بعدازاں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء سے ذوالفقار علی بھٹو کے سول مارشل لاء، صدارت اور وزارت اعظمیٰ کے پورے ادوار سے تختہ دار تک اوچ میونسپلٹی کا نظام ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔ جولائی 1977ء کو اپریشن فیئر پلے کے ذریعے شب خون مار کر اقتدار سنبھالنے والے جنرل محمد ضیاءالحق کے بلدیاتی نظام میں اوچ شہر کی میونسپلٹی سے تنزلی کرتے ہوئے اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔
الشمس چوک کے ‘نشاہ ثانیہ’ کا دوسرا باب 1979ء میں شروع ہوتا ہے۔ 25 ستمبر 1979ء کے بلدیاتی انتخابات میں مخدوم سید غلام اصغر بخاری ٹاؤن کمیٹی اوچ شریف کے چیئرمین منتخب ہوئے اور خواجہ مظفر حسین وائس چیئرمین۔ شارق مسعود انصاری ٹاؤن کمیٹی کے چیف آفیسر تھے۔ 9 اکتوبر 1979ء کو ٹاؤن کمیٹی کے منتخب اراکین نے اپنے افتتاحی اجلاس میں شہر کی ترقی کے لیے جہاں کئی دور رس نتائج کے حامل فیصلے کیے، وہاں ایوان نمائندگان نے متفقہ طور پر الشمس چوک کی توسیع اور تزئین و آرائش کی قرارداد بھی منظور کی۔ جنوری 1980ء میں بہاول پور کی ایک تعمیراتی کمپنی ایم اینڈ ایم کنٹریکٹرز نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ کمپنی کے انجینئر محسن مبین نے چار ستونوں پر مشتمل گنبد نما گول شیڈ کا ڈیزائن تیار کیا جسے چیئرمین ٹاؤن کمیٹی نے پسند کیا۔ الشمس چوک پر یہ گنبد نما شیڈ جولائی 1980ء میں مکمل ہوا۔ 14 اگست 1980ء کو چیئرمین ٹاؤن کمیٹی مخدوم سید غلام اصغر بخاری نے نئے الشمس چوک کا افتتاح کیا۔ الشمس چوک کا یہ ڈیزائن اپنی پائیداری اور ندرت میں اپنی مثال آپ تھا۔ گول شیڈ کی گنبد نما ڈھلوانی چھت پر سفید اور سیاہ دھاریاں کندہ تھیں، اس کے اوپر وسط میں سبز ہلالی پرچم نصب تھا۔ یہ شیڈ زمین سے تقریب ایک فٹ اونچا تھا۔ چاروں طرف اپنی جنگلے لگے ہوئے تھے، اندر مختلف رنگوں کے بلب بھی نصب تھے جو رات کو اپنی روشنیاں بکھیرتے۔ دن کو عموماً پولیس کا سنتری بابو شیڈ کے اندر کرسی ڈال کر شہر کے امن و امان پر نظر رکھتا
ایم پی اے ملک قادر بخش وارن نے1992 ء میں عباسیہ روڈ اور احمد پور شرقیہ روڈ کی تعمیر کا منصوبہ منظور کرایا، سڑک اونچی ہوئی تو الشمس چوک کا یہ شیڈ بھی سڑک کے برابر ہو گیا۔ عدم توجہی کے باعث اس کی شکل بدنما ہونے لگی، بلب اور حفاظتی جنگلے نشئی اکھاڑ کر لے گئے، قومی پرچم کی بجائے لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے بھانت بھانت کے چیتھڑے لہرانے لگے۔ اور ستونوں پر مردانہ کمزوری کے اشتہار اہل شہر کی اجتماعی بے حسی کی داستان سنانے لگے۔ 2001ء کے ابتدائی مہینوں میں کسی ٹرک نے ٹکر ماری تو ایک ستون ٹیڑھا ہو گیا اور شیڈ ایک طرف جھک گیا۔ اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر ٹاؤن کمیٹی میاں جمیل احمد نے مزید کسی نقصان سے بچنے کے لیے شیڈ کو مسمار کرنے کا حکم دیا اور یوں مسماری کے بعد عملہ ستون سمیت سارا ملبہ ٹاؤن کمیٹی لے آیا
الشمس چوک کی تزئین و آرائش کا تیسرا باب 2001ء میں لکھا گیا جب میونسپل انتظامیہ نے یہاں فوارے کی تنصیب کا فیصلہ کیا۔ یہ فوارہ تقریباً دو دہائیوں تک اپنے پانیوں کے رنگ بکھیرتا رہا۔ مذکورہ فوارے سے ہماری ہم عصر نسل سمیت کہیں سوں کی خوش گوار یادیں وابستہ ہوں گی۔ مذکورہ فوارہ 2001ء کے اواخر میں اس وقت کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن احمد پور شرقیہ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ مقامی حکومتوں کے نظام میں میونسپل کمیٹی اوچ شریف کو سی او یونٹ کا درجہ دے کر ٹی ایم اے احمد پور شرقیہ کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔ اگست 2001ء کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی احمد پور شرقیہ کے تحصیل ناظم جب کہ مخدوم سید ظفر حسن گیلانی اوچ شریف کے سٹی ناظم منتخب ہوئے تھے۔ اشمس چوک پر فوارے کی تنصیب کے خیال کے پس منظر میں بہاول پور کا عالمی شہرت یافتہ فوارہ تھا جس سے منسوب فوارہ چوک زبان زد عام و خاص ہے، فوارہ چلانے اور لائٹنگ کے لیے میونسپل نے خصوصی طور پر بجلی کا تھری فیز کنکشن لگوایا۔ مغرب سے عشا کے دوران جب فوارہ پانی کی دھاریں چھوڑتا اور رنگ برنگے بلب روشن ہوتے تو ماحول سا بن جاتا۔ اس وقت بچوں اور بڑوں کی کثیر تعداد ان مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے الشمس چوک پر موجود ہوتی۔ سن 2015ء تک یہ فوارہ کسی نہ کسی طرح فعال رہا۔ پھر یہ بھی روایتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ نزدیکی دکان داروں اور ریڑھی بانوں نے کوڑا کرکٹ اس فوارے کے اندر پھینکنا شروع کر دیا۔ فوارے کی افتتاحی تختی اور دیگر جگہوں پر مختلف اشتہار لگ گئے، جنگلے ٹوٹ گئے۔۔۔۔ 2015ء میں ایم این اے مخدوم سید علی حسن نے اوچ شریف ایکسپریس وے کا منصوبہ حکومت سے منظور کرایا تھا جس میں سڑکوں کی توسیع اور ان کو اونچا کرنے کا کام بھی شامل تھا۔ جنوری 2019ء میں اوچ شریف ایکسپریس وے کے اس منصوبے کے تعمیراتی کام کے دوران الشمس چوک کی خوبصورتی کا استعارہ یہ فوارہ بھی تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو گیا۔
الشمس چوک کی تزئین و آرائش کا چوتھا باب آج شروع ہو رہا ہے۔ سٹی بیوٹیفیکیشن پلان کے تحت میونسپل کمیٹی اوچ شریف نے الشمس چوک اور عباسیہ کینال برج (للو والی پل) کی بیوٹیفیکیشن کا کام تیزی سے جاری ہے۔ الشمس چوک پر ڈولفن کے مونومنٹ اور للو والی پل پر I ♥️ UCH SHARIF کی شکل میں لائٹس کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ اللہ پاک ہمارے شہر کی رونقیں اور خوبصورتی کو برقرار رکھے اور ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ لیکن ہمارے پڑھنے والوں کو یہ جاننے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ الشمس چوک کے گنبد نما گول شیڈ کے چاروں ستون اور فوارے کا کئی من وزنی پتھر یادگاروں کے طور پر ہم نے اپنی لائبریری میں محفوظ کر رکھے ہیں۔