Advertisements

سڈنی واقعہ :تحقیقات اور منظم پروپیگنڈا

Advertisements

2025اداریہ — 16 دسمبر

سڈنی کے ساحل پر پیش آنے والے افسوسناک اور خونی حملے نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد آسٹریلوی حکام کی جانب سے تحقیقات کا آغاز اور بین الاقوامی تعاون کے لیے بھارتی ایجنسیز سے رابطہ ایک تفتیشی عمل کا حصہ ہے، جسے اصولی طور پر شفاف اور غیرجانبدار رہنا چاہیے۔

Advertisements

تاہم اس کے برعکس، بھارت اور افغانستان سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی منظم کوششیں نہایت تشویشناک ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے ایک پاکستانی نوجوان کو حملہ آور قرار دینا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ عمل ہے بلکہ یہ بین الاقوامی صحافتی اقدار اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ خود متاثرہ نوجوان کا ویڈیو بیان اس جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتا ہے اور اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کس طرح ریاستی بیانیوں کا ہتھیار بن چکا ہے۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایک جانب آسٹریلوی حکام تحقیقات کے لیے بھارتی ایجنسیز سے باضابطہ رابطے کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب بھارتی اور افغان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا بازار گرم ہے۔ یہ دوہرا رویہ نہ صرف شکوک کو جنم دیتا ہے بلکہ تحقیقاتی عمل کی ساکھ پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

آسٹریلوی وزیراعظم کا یہ واضح بیان کہ واقعے میں کسی بڑے انتہا پسند نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے اور ملزمان کسی واچ لسٹ میں شامل نہیں تھے، حقائق کو جذباتی بیانیوں سے الگ رکھنے کی ایک ذمہ دار مثال ہے۔ ایسے میں کسی ملک یا قوم کو بلا جواز موردِ الزام ٹھہرانا حالات کو مزید پیچیدہ کرنے کے مترادف ہے۔

دہشت گردی کے واقعات میں اصل ضرورت غیرجانبدار تحقیقات، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور پروپیگنڈے کے بجائے حقائق پر مبنی موقف اپنانے کی ہے۔ عالمی برادری کو سمجھنا ہوگا کہ الزام تراشی نہیں بلکہ انصاف، شفافیت اور ذمہ داری ہی امن کی ضمانت ہیں۔