اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس؛ سپریم کورٹ کا ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

Revision petition in Mubarak Sani case filed in Supreme Court

اسلام آباد:: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہ کیا جائے۔  سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بنچ کا حصہ ہیں۔  سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ملزمان کے ساتھ میٹنگ فکس ہیں، صرف لاہور میں ملاقات کا مسئلہ بنا تھا، حسان نیازی لاہور میں ہیں، میں نے متعلقہ حکام کو تجویز دے دی ہیں۔  اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر تفتیش مکمل ہوگئی تو جوڈیشل کسٹڈی میں کیوں ہیں؟ پھر تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، آپ ملزمان کے ساتھ سلوک تو انسانوں والا کریں۔  جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہو سکتا۔  جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتے ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔  اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا 5 سالہ بچہ فوت ہوگیا ہے۔  ٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ آج ان کی ملاقات ہو جائے گی، آج حفیظ اللہ نیازی صاحب کی بھی اپنے بیٹے سے ملاقات ہونی ہے۔  بعد ازاں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ہر سماعت پر ہمارا آرڈر درکار ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ ملزمان کا اگر جسمانی ریمانڈ ختم ہوگیا ہے تو وہ جیل میں کیوں نہیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں جوڈیشل ریمانڈ نہیں دیا جاتا۔  اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اہل خانہ سے ملاقاتیں کرانے کیلئے فوکل پرسن کون ہے؟  اس موقع پر ڈائریکٹر لاء بریگیڈیئر عمران عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایک نمبر ملزمان کے اہلخانہ کو دیا گیا ہے جس پر وہ رابطہ کر سکتے ہیں، وہ نمبر ہر وقت رابطے کیلئے میسر رہتا ہے۔  جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی تفصیلات ہیں ملزمان کے اہلخانہ سے متعلق؟ ڈائریکٹر لاء نے جواب دیا کہ میرے پاس اس وقت تفصیلات نہیں ہیں، جسٹس حسن اظہر نے مزید کہا کہ جن کے بچے کی وفات ہوئی ہے انہیں اہلخانہ سے فوری طور پر ملوایا جائے۔  بعد ازاں اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل کا آغاز کر دیا۔  جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج 2 بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔  جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جن سے تفتیش مکمل ہو چکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کیلئے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں۔  جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ انسانوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔  اس موقع پر جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ ہمیں غلط دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اپیل میں اگر کیس آیا ہے تو پھر سب کچھ کھل گیا ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہو سکتا ہے میرا نہیں، ہمیں اس اپیل کا سکوپ دیکھنا ہے۔  اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت اپیل کا سکوپ وسیع ہے۔  جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ہم اپیل میں اس کیس کو ریمانڈ بھی کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آپ کے پاس ریمانڈ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔  جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اپیل میں فیصلہ کالعدم برقرار یا ریمانڈ کیا جا سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کا سکوپ وسیع ہے تو آگے بڑھیے، جسٹس عرفان سعادت خان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اپیل ہے، ریویو نہیں۔  بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ وفاق یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔  اس پر اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے۔  جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا، کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں۔  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے اپیل دائر کرنے کیلئے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔  جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کیلئے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ منظوری لازمی نہیں ہے، اس موقع پر اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کر دی اور کہا کہ عدالت کے کوئی سوالات ہوئے تو میں موجود ہوں گا۔  بعدازاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، جسٹس امین الدین نے کہا کہ خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئی واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی  اس موقع پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی وڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش ہوئے۔  ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے نہیں آ سکتا، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موثر ہو جائے گی۔  جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کئی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کر چکی ہے، پرائیویٹ وکیل کو حکومت کی نمائندگی کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج دیا تھا۔  فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی نجی وکیل کیا جا سکتا ہے، اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے۔  جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے۔  بعدازاں عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی جس کے ساتھ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا۔  جسٹس شاہد وحید نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا فرد جرم سے پہلے کیس ٹرانسفر ہو سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیس فرد جرم سے قبل یا بعد کسی بھی وقت ٹرانسفر ہوسکتا ہے؟  جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ کیس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بھی آگاہ کریں۔  اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بنچ کی دستیابی پر کیس دوبارہ سماعت کیلئے مقرر ہوگا۔  یاد رہے کہ 8 جولائی کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ قائد اعظم نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے، اسے آگ لگائی گئی 

مزید پڑھیں