Advertisements

حکومتی اداروں کی انتظامی مداخلت کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن

PSMA
Advertisements

تمام شوگر ملیں 165 روپے فی کلو ایکس مل پر چینی فراہم کر رہی ہیں اور ملک میں وسط نومبر 2025 تک چینی کے وافر اسٹاکس موجود ہیں۔ ترجمان

 بہاولپور( پریس ریلیز )  پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے کہا کہ تمام شوگر ملیں 165 روپے فی کلو ایکس مل پر چینی فراہم کر رہی ہیں اور ملک میں وسط نومبر 2025 تک چینی کے وافر اسٹاکس موجود ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ حکومتی اداروں کی جانب سے کی گئی بعض انتظامی مداخلت کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی تھی جس میں شوگر انڈسٹری حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اس میں بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ شوگر انڈسٹری نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ تمام ملیں 165 روپے فی کلو ایکس مل پر مارکیٹ میں چینی فراہم کر رہی ہیں۔ ملوں کا تعلق صرف ایکس مل قیمتوں  تک ہوتا ہے جبکہ مارکیٹ میں چینی کی ریٹیل قیمت کا تعین عموماََ مارکیٹ فورسز کرتی ہیں جس سے شوگر انڈسٹری کا کوئی تعلق نہیں ہے اوراب  اس کا کنٹرول حکومت کررہی ہے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق چینی 200 روپے فی کلو پر بِک رہی ہے جبکہ ہماری اطلاعات  کے مطابق زیادہ تر  مارکیٹوں میں حکومتی مقرر کردہ قیمت 173 سے لے کر175  روپے فی کلو تک چینی دستیاب ہے۔

Advertisements

ترجمان نے واضح کیا کہ شوگر  ڈیلرز ملوں سے 165 روپے فی کلو ایکس مل پر چینی خرید کر گھریلو صارفین کو دینے کی بجائے صنعتی و کمرشل صارفین کو زیادہ منافع پر دے رہے ہیں۔ سٹہ مافیا اور اسٹاکسٹس قیمتوں کے تعین سے پہلے کی اپنی خریدکردہ  چینی کی سپلائی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور چینی کی مصنوعی قلت کا تاثر پیش کر کے  چینی کی برآمدات پر الزام لگا رہے ہیں۔ چینی کی قیمتوں کو برآمدات سے منسلک کرنا سراسر حقائق کے منافی ہے۔ گذشتہ دو سالوں کے کیری اوور اسٹاک کی فالتو چینی جو کہ ملوں کے پاس موجود تھی اور 24-2023 کے  کرشنگ سیزن میں مزید اضافی چینی پیدا ہونے کی صورت میں ہی حکومت نے چینی برآمد کی اجازت دی تھی۔ 140 روپے فی کلو کی حکومتی شرط پوری کرتے ہوئے ملوں کو چینی پیداواری لاگت سے کافی نیچے  نقصان پر فروخت کرنا پڑی۔ برآمدات کی اجازت سے قبل تمام سرکاری تخمینوںمیں قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ اگلے کرشنگ سیزن میں گنے کی اچھی پیداوار حاصل ہو گی اور چینی بھی زیادہ بنے گی مگر گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گنے کی فی ایکڑ پیداوار اور اس میں چینی کی مقدار کافی حد تک کم ہو ئی جس کی وجہ سے اس کی پیداوار بھی کم ہوئی۔ پچھلے کرشنگ سیزن میں شوگر انڈسٹری نے 700 روپے فی من تک گنا خریدا تھا جو کہ 24-2023 کے کرشنگ سیزن میں 425 روپے فی من تھا۔ اس سے کاشتکار کو خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوا جبکہ اُس کے برعکس انھیں دیگر فصلوں میں نقصان اُٹھانا پڑا۔ تاہم شوگر انڈسٹری کی چینی بنانے کی لاگت بہت بڑھ گئی۔

گذشتہ سالوں میں دیگر پیداواری اخراجات  میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے کئی سالوں سے شوگر ملوں کو کافی نقصان اُٹھانا پڑا اوراب 12 شوگر ملیں بند  پڑی ہیں اور برائے فروخت ہیں۔ اس کے باوجود شوگر انڈسٹری پر منافع خوری کے ناجائز الزامات بلاجواز ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل صرف جلد از جلد شوگر سیکٹر کی ڈی-ریگولیشن کی صورت میں ہی ممکن ہے جس طرح چاول اور مکئی کی فصلات سے جُڑی صنعتوں کو ڈی-ریگولیٹ کر کے زرِمبادلہ بھی کمایا گیا اور کسانوں کو بھی بین الاقوامی قیمتیں ملیں ۔