سانحہ شیخانی: ریاستی عملداری کا کڑا امتحان
رحیم یار خان کے علاقے شیخانی پولیس چوکی پر کچے کے ڈاکوؤں کا بزدلانہ حملہ اور اس میں پنجاب پولیس ایلیٹ فورس کے پانچ جوانوں کی شہادت ایک دل دہلا دینے والا قومی سانحہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ ریاست کی عملداری کے حوالے سے بھی سخت سوالات کو جنم دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے شہداء کی قربانی کو سراہتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور اعلان کیا کہ کچے کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور دیگر اعلیٰ افسران نے بھی نماز جنازہ کے موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا۔
کچے کا علاقہ طویل عرصے سے جرائم پیشہ گروہوں اور منظم ملیشیا کا گڑھ بن چکا ہے۔ باوجود متعدد آپریشنز کے یہ گروہ نہ صرف دوبارہ منظم ہو چکے ہیں بلکہ اب وہ مزید خطرناک اور اسلحہ سے لیس ہو چکے ہیں۔ عرفان، سلیم، نخیل، خلیل اور غضنفر کی شہادت یہ پیغام دے رہی ہے کہ جزوی اقدامات ناکافی ہو چکے ہیں۔ یہ محض یونیفارم والے اہلکار نہیں تھے، یہ بیٹے، شوہر اور بھائی تھے۔ ایک نے بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے، دیگر ابھی غیر شادی شدہ نوجوان تھے جن کی زندگیاں ملک پر قربان ہو گئیں۔ ان کی قربانی کو صرف تعریفی بیانات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے عملی اقدامات میں ڈھالا جائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر مشترکہ فوجی آپریشن کا آغاز کریں، جس میں پولیس، فوج، رینجرز، نیوی اور دیگر ایجنسیاں بھرپور حصہ لیں۔ صرف موجودہ دہشت گردوں کو ختم کرنا کافی نہیں بلکہ اس نظام کو بھی توڑنا ہوگا جو ان کو سہارا دیتا ہے — چاہے وہ اسلحہ کی سمگلنگ ہو، مقامی سرپرستی ہو یا انتظامی نااہلی۔ شہداء کے خاندانوں کی فوری مالی معاونت، بچوں کی تعلیم، اور مستقل فلاحی اقدامات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونے چاہئیں۔ قربانی کا صلہ وعدوں سے نہیں، عملی قدموں سے دیا جا سکتا ہے۔ ان شہداء کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ ان کی قربانی ریاستی رٹ کی بحالی کا نقطہ آغاز بننی چاہیے۔ ان بہادر سپوتوں کو سلام، جنہوں نے وطن پر جان قربان کر دی۔