Contact Us

محسن پاکستان نواب آف بہاول پور کی پاکستان کے لیے خدمات

Nawab Sadiq
نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی مرحوم

چوبیس مئی محسن پاکستان نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان خامس عباسی کی برسی کے حوالہ سے خصوصی تحریر
تحریر: احمدعلی محمودیؔ

مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور علامہ محمد اقبال ؒ نے پیش کیا جسے عملی شکل قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے دی اورمسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن ’’پاکستان ‘‘ وجود میں آیا ۔ قیام پاکستان کے وقت ہندوسیاستدانوں کا خیال تھا کہ پاکستان چھ ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہے گا اور مجبوراً مسلمانوں کو پھرسے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا پڑے گا ۔اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے انگریزوں سے سازباز کرکے سب سے پہلے تو مجوزہ نقشہ میں ترمیم کرکے گورداس پو ر کا ضلع ہندوستان میں شامل کرالیا ،حالانکہ یہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا اور فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا ۔ تقسیم ملک کے ساتھ ساتھ تمام اثاثے بھی تقسیم ہوتے اور خزانہ ہند سے پاکستان کو بھی حصہ ملناتھا مگر یہاں سازش کے ذریعے پاکستان کو اس کاحصہ نہ دیا گیا ۔ اس طرح 14اگست 1947 ء کو جب پاکستان بنا تو حکومت کا خزانہ خالی تھا حتّٰی کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا بندوبست بھی نہیں تھا اس مشکل گھڑی میں امیرآف بھاول پور نے نہ صرف فوری طور پر حکومت پاکستان کو سات کروڑ کی ادائیگی کی بلکہ پورے ایک سال تک ملک کے تما م سرکاری اداروں کے عملہ کی تنخواہیں بہاول پور کے خزانے سے ادا کی گئیں اس کے علاوہ پاکستان کی کرنسی کی ضمانت بھی نواب صادق محمد خان نے دی تھی ۔

12اگست 1947ء کو جب قائد اعظم بطور گورنر جنرل پاکستان تشریف لائے تو نواب صاحب نے کراچی میں اپنے محل ’’قمر پیلس‘‘کو ان کے لیے خالی کردیا ۔قمر پیلس میں ہی قائداعظم کو پہلا گارڈآف آنر بہاول پور آرمی(آٹھ بلوچ رجمنٹ) نے پیش کیا ۔ 14 اگست 1947ء کو جب قائداعظم گورنر جنرل کاحلف اٹھانے کے لیے تشریف لے گئے تونواب آف بہاول پور کی ذاتی رولز رائس گاڑی میں گئے ،جس کا نمبر BWP-72 تھا۔اسی گاڑی میں وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ نواب صاحب نے قائد اعظم کو دورولز رائس گاڑیاں بھجوائی تھیں ۔ تقریب کے اختتام پر قائد اعظم نے دونوں گاڑیاں نواب صاحب کو واپس بھجوادیںمگر آپ نے دوبارہ یہ گا ڑیاں قائد اعظم کو بھجوادیں کہ یہ گاڑیاں میں نے آپ کے لیے اور محترمہ فاطمہ جناح کے لیے تحفتاً بھجوائی ہیں یہ گاڑیاں آج بھی قائد اعظم میوزیم کراچی میں صادق دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مملکت خدادادپاکستان کے لیے نواب آف بہاول پور کی بڑی خدمات ہیں ورنہ پاکستان پنڈت جواہر لعل نہرو اور دوسرے لیڈروں کے دعوے کے مطابق چھ ماہ میں نہیں تین ماہ میں ہی ختم ہوجاتا ۔تقسیم ہند کے وقت حکومت برطانیہ حکومت نے تمام والیان ریاست کو یہ حق دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے ہندوستان یا پاکستان میں سے جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں ۔پنڈت نہرو نے اپنی بہن وجے لکشمی پنڈت اور مہارانی امرت کورجو کانگریس کی سرگرم کارکن تھیں ،نواب صاحب کے پاس صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب بھجوایا ۔ انہوں نے نواب صاحب سے ملاقات میں ان سے ریاست بہاول پور کا الحاق ہندوستان سے کرنے کی درخواست کی اور یہ تجویز پیش کی کہ ریاست بہاول پور کے ساتھ ایک خصوصی معاہدہ کیا جاسکتاہے ،جس کے ذریعے حکومت ہند ریاست کی مکمل آزادی او رخود مختاری کی ضمانت دے گی ،ا س کے علاوہ جو مراعات نواب صاحب چاہیں وہ بھی دی جائیں گی ۔ مگر نواب صاحب نے فرمایا بہاول پور ایک مسلم ریاست ہے میں آپ کی تجویز کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر غور کیا جائے ۔ایک ماہ بعد پھر وجے لکشمی نے اپنے ایک انگریز دوست کے ذریعے لندن میں نواب صاحب سے ملاقات کی اور اپنی تجویز دہرائی کہ اس کے علاوہ ہم اوربھی بہت سی مراعات دینے کے لیے تیا رہیں مگر نواب صاحب نے پھر اس تجویز کو ٹھکرادیا ۔مگر جواہر لعل نہرو نے ہمت نہ ہاری ایک ماہ بعد خود لند ن نواب صاحب سے ملاقات کے لیے پہنچ گیا اور نواب صاحب کی رہائش گاہ سرے محل لند ن میں ان سے ملاقات کی اور پھر ان سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی تجویز پیش کرتے ہوئے انہیں ایک سادہ چیک پیش کیا کہ اس میں اپنی مرضی سے جتنی رقم چاہیں لکھ دیں ۔ہندوستان میں بمبئی ،دہلی اور پالم پور میں ان کی ذاتی جائیداد کا مکمل تحفظ کیا جائے گا ،چولستان کو سیراب کرنے کے لیے بھابڑا ڈیم سے وافر پانی ریاست بہاول پور کو مہیا کیا جائے گا ،ہندوستان سے بہاول پور کے الحاق کی صورت میں ریاست بیکانیر ، جیلسمیرجو بہاول پور سے متصل ریاستیں ہیں ، انہیں بہاول پور کے ساتھ ملاکر ایک انتظامی یونٹ بناکراس کا حکمران نواب آف بہاول پور کو بنادیا جائے گا ۔

Nawab Sadiq

نواب صاحب نے ان تمام پیشکشوں کو ٹھکراکر نہ صرف خود پاکستان سے الحاق کیا بلکہ مہاراجہ جودھ پور اور جے پور کو بھی پاکستان سے الحاق کے لیے ترغیب دی اور اس سلسلہ میں ان دونوں کی قائداعظم سے ملاقات کا بھی اہتمام کیا ۔قائد اعظم نے انہیں سادہ کاغذ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پر جو بھی شرائط چاہیں لکھ دیں ،وہ انہیں قبول کرلیں گے ۔ اس خبر سے ریاست میں تہلکہ مچ گیا اور ریاست کی وزارت کا سیکرٹری مینن مینڈوراپٹیل کے پاس پہنچ گیا اورکہنے لگا اگر جودھ پور اور جے پور کا پاکستا ن سے الحاق ہوگیا تو سارا کھیل ہی بگڑ جائے گا ،پٹیل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ وہ ان مہاراجوں کو سمجھائیں ۔چناچہ ماؤنٹ بیٹن نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں پاکستان سے الحاق نہ کرنے دیا ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش تھی کہ ان کے بعد اعلیٰ حضرت نواب صادق محمد خان خامس عباسی پاکستان کے گورنر جنرل بنیں ۔انہوں نے نواب صاحب سے اس کا اظہار بھی کیاتھامگرانہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں اب جب کہ اپنا صدیوں پرانا اقتدار چھوڑرہا ہوں تواس کے بعد مجھے کسی منصب کی خواہش نہیں ،قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان شہید اور جناب عبدالرشید نواب صاحب کے پاس تشریف لائے اور انہیں گورنر جنرل کا عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی مگر آپ نے معذرت کرلی ۔

قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں دس ریاستیں تھیں:۱۔بہاول پور ۲۔خیر پور۳۔ سوات ۴۔امب۵۔دیر ۶۔ چترال ۷۔لس بیلہ ۸۔مکران۹۔خاران ۱۰۔قلات ۔
ان میں ریاست بہاول پو ر ہر لحاظ سے معقول اور بڑی ریاست تھی ،ا س کی اپنی کرنسی تھی ،اپنے ڈاک ٹکٹ ،اپنے اسٹامپ پیپرز تھے جنہیں قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد حکومت پاکستان نے بھی استعمال کیے بعدمیں حکومت پاکستان کے اسٹامپ پیپرز چھاپے گئے ،ریاست بہاول پور کی اپنی اسمبلی ،اپنا آئین اوراپنی ہائیکورٹ تھی ،بہترین زرخیز زمین تھی ،جس میں ریاست کی ضرورت سے زیادہ گندم ،کپاس،گنا اور دوسری فصلیں ہوتی تھیں۔ریاست میں مثالی امن تھا ،اس سب کے باوجود جس نے سب سے پہلے پاکستان سے الحاق کیا، وہ ریاست بہاول پور تھی جو ایک معاہدے کے تحت 3اکتوبر 1947ء کو پاکستان میں شامل ہوئی جبکہ سب سے آخری ریاست قلات تھی،جو 31مارچ 1948ء کو پاکستان کے ساتھ شامل ہوئی۔1949ء میں بہاول پور کی فوج کو بھی افواج پاکستان میں شامل کردیاگیا جس کے لیے نواب صاحب نے 2 کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دیے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے لاہور ہائی کورٹ کے افتتاح کے موقع پر بہاول پور کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا :’’ امیر آف بہاول پور سرصادق محمد خان خامس عباسی نے ہمیں قلم کی روشنائی تک کی امداد دی ہے ، امیر آف بہاول پور نے قدم بقدم ہماری مدد کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا ۔
قیام پاکستان کے بعد جب شہنشاہ ایران اور ملکہ فرح بہلوی سرکاری دورے پر پاکستان آئے تواس دورے کے تمام اخراجات نواب آف بہاول پور نے برداشت کیے حتّٰی کہ کھاناپکانے کے لیے شاہی باورچی ڈیرہ نواب صاحب سے کراچی بھجوائے ۔

نواب صاحب کے قائد اعظم سے ذاتی تعلقات تھے ،آخری ایام میں جب قائد اعظم زیارت میں مقیم تھے اور ان کی طبیعت ناساز تھی ،26اگست1948ء کو قائد اعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش نے قائد اعظم کو کراچی لے جانے کا مشورہ دیاتو محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا کہ بھائی بیماری کی حالت میں گورنر جنرل ہاؤس نہیں جانا چاہتے اور ساتھ ہی فرمایا کہ کراچی میں صرف ملیر ہی ایک پرسکون جگہ ہے ،ملیر ہی میں نواب آف بہاول پور کا القمرپیلس تھا ،جہاں قائداعظم نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ گزارا تھا چناچہ جب قائد اعظم کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی تو آپ فوراً رضامند ہوگئے ،ان دنوں القمرپیلس میں ولی عہد محمد عباس خان عباسی رہائش پزیر تھے جو بعد میں گورنر سندھ بھی رہے ۔ نواب صاحب اس وقت لند ن میں مقیم تھے انہیں جب اس امر کی اطلاع دی گئی تو آپ نے لندن سے وزیر اعظم بہاول پور کو بزریعہ کیبل مطلع کیا کہ قائد اعظم کی رہائش کے لیے ملیر میں القمر پیلس (بہاول پور ہاؤس) میں انتظام کیا جائے مگر قائد اعظم وہاں تشریف نہ لاسکے اور ملیر پہنچنے سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جاملے ۔
علامہ محمد اقبال بہاول پور سے بطور لیگل ایڈوائزر منسلک تھے ۔نواب صاحب علامہ اقبال کے خیالات سے بے حد متاثر تھے اور علامہ اقبال بھی نواب صاحب کے مداح تھے ۔1926ء میں علامہ اقبال ؒ کو نواب صاحب نے ریاست میں مدعو کیا ،جونہی علامہ صاحب بہاول پور ریلوے اسٹیشن پر گاڑی سے اترے تو ان کے استقبال کے لیے ایک وزیر اورنواب صاحب کا پرائیویٹ سیکرٹری وہاں موجود تھا،ٹرین سے اتر کر علامہ نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اورہرطرف اسلامی تہذیب وتمدن کا نظارہ دیکھا ۔بہاول پور ریلوے اسٹیشن کی عمارت گنبدنما تھی جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ کسی اسلامی حکومت کا علاقہ ہے ،تمام لوگوں کے سروں پر سرخ ترکی ٹوپیاں تھیں، ہرایک نہایت خلوص اور احترام سے ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہا تھا ،اس منظر کو دیکھ کر علامہ اقبال کی زبان سے فی البدیہہ یہ شعر اداہوا ۔

زندہ ہیں ترے دم سے عرب کی روایتیں
اے یادگار سطوت اسلام  زندہ باد 

Ahmad Ali Mehmoodi

مزید پڑھیں