سانحہ دریائے سوات —- کوتاہیوں کا کڑا احتساب اور محفوظ مستقبل کی ضرورت
تیرہ جولائی 2025
دریائے سوات میں 27 جون کو پیش آنے والا افسوسناک واقعہ جس میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے، پورے ملک کو سوگوار کر گیا۔ یہ سانحہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا دردناک مظہر ہے بلکہ انتظامی غفلت، ناقص حکمت عملی اور ریور سیفٹی کے شدید فقدان کا کھلا ثبوت بھی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس افسوسناک واقعے کی شفاف اور تفصیلی انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر 14 سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کی منظوری دی ہے، جن میں ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، پراجیکٹ ڈائریکٹرز، ریسکیو 1122، ٹی ایم اے اور محکمہ آبپاشی کے افسران شامل ہیں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ نہ صرف دریا کے کنارے سیاحوں کی سکیورٹی کے لیے کوئی جامع پلان موجود تھا، بلکہ محکمہ جاتی کوآرڈینیشن کا بھی فقدان تھا۔ ضلعی انتظامیہ، ٹی ایم اے، ریسکیو 1122 اور محکمہ آبپاشی سب اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غافل پائے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ دریا میں پانی کی سطح بڑھنے کے واضح خدشات کے باوجود کوئی پیشگی وارننگ یا حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے، اور نہ ہی غیرقانونی تجاوزات یا ہوٹلنگ کو روکا گیا۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے انکوائری رپورٹ کی روشنی میں نہ صرف متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کی منظوری دی گئی ہے بلکہ 60 دنوں میں ضابطہ جاتی کارروائی مکمل کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اعلیٰ سطح کی اوور سائیٹ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو ان اقدامات کی نگرانی کرے گی۔
اس سانحے کو ایک "ٹرننگ پوائنٹ” کے طور پر لینا چاہیے۔ حکومت کو درج ذیل اقدامات فوری طور پر عمل میں لانے کی ضرورت ہے: دریا کے کنارے سیاحت کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے جائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ دریا کے اردگرد ناجائز ہوٹلنگ، پارکنگ اور ریسٹورنٹس کو فوری ہٹایا جائے۔ ریسکیو 1122 کی صلاحیت میں اضافہ: نہ صرف آلات بلکہ عملے کو بھی جدید تربیت دی جائے۔ مقامی و سیاحتی آبادی کو سیلاب، پانی کے بہاؤ اور خطرناک مقامات کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ وارننگ سسٹمز، سی سی ٹی وی، ڈرون نگرانی، اور موبائل الرٹ سروس کا آغاز کیا جائے۔ ہم ان سطور کے ذریعے خیبرپختونخوا حکومت سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس المیے سے سبق حاصل کرتے ہوئے نہ صرف متعلقہ افسران کے خلاف بروقت اور مثالی کارروائی عمل میں لائے، بلکہ صوبے بھر میں دریاؤں کے اطراف سیاحتی مقامات پر سیفٹی پروٹوکولز کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، اور اب وقت آ چکا ہے کہ اس ذمہ داری کو حقیقی معنوں میں نبھایا جائے۔