خیبرپختونخوا، کشمیر اور گلگت میں بارشوں کی تباہ کاریاں اور ریاستی اقدامات
اداریہ(17 اگست 2025)
خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حالیہ بارشوں اور اچانک آنے والے طوفانی ریلوں نے قیامت ڈھا دی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 399 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکہ سیکڑوں مکانات، پل اور کھیت بہہ گئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ سہنا پڑ رہا ہے بلکہ بے گھری، بھوک اور بیماریوں جیسے مسائل نے ان کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔
اس المناک صورتِ حال پر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے متاثرین کی امداد کے لئے 50 کروڑ روپے کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب پاک فوج نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ہدایت پر فوجی افسران اور جوانوں نے اپنی ایک دن کی تنخواہ متاثرین کے نام کردی ہے جبکہ فوجی دستے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور انخلا کے کاموں میں دن رات مصروف ہیں۔ متاثرین کے لئے راشن اور خوراک بھی فراہم کی جارہی ہے تاکہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔
یہ اقدامات یقیناً متاثرین کے لئے حوصلہ افزا ہیں لیکن اصل سوال یہی ہے کہ ہر سال بارش اور سیلاب کو قومی سانحہ بننے سے کیسے روکا جائے؟ صرف ہنگامی امداد کافی نہیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر نکاسی آب کا نظام بہتر بنانا، ڈیموں کی تعمیر، اور کمیونٹی بیسڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ڈھانچے کو فعال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ 399 زندگیاں محض اعداد نہیں، یہ ہمارے اجتماعی نظام کی کمزوری کا نوحہ ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ متاثرین کی بحالی اور آئندہ قدرتی آفات کی روک تھام کے لئے فوری اور طویل المدتی اقدامات کرے، ورنہ ہر سال کی بارش ایک نیا قومی سانحہ بنتی رہے گی۔