قربانی کی حقیقت

علامہ احمد علی محمودی
قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے جو ہر سال عید الاضحی کے موقع پر ادا کی جاتی ہے ۔ یہ عمل محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں ، بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم روحانی مقصد ، اخلاص ، اور فرمانبرداری کا پیغام چھپا ہے ۔ قربانی کی اصل روح اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کے حکم کی تعمیل ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ﴾ ( سورۃ الحج : 37 )
’’ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون ، بلکہ اسے تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔ ‘‘
قربانی کا تاریخی پس منظر :
قربانی کا تاریخی پس منظر اسلامی تعلیمات اور انبیاء کرام ؑکی سنت سے جڑا ہوا ہے ۔ اس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے ہوتا ہے ، جسے قرآن و حدیث میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں ۔ نبیوں کے خواب وحی ہوتے ہیں ، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس خواب کو اللہ کا حکم سمجھا اور عمل کے لیے تیار ہو گئے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خواب کا ذکر کیا ، تو بیٹے نے بھی مکمل رضا مندی کا اظہار کیا اور کہا :’’ اے اباجان ! جو حکم آپ کو دیا جا رہا ہے ، اسے انجام دیجیے ، ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ ‘‘ (سورۃ الصافات : 102 )
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا اور اُن کی قربانی کو قبول فرمایا ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : > ’’ اے ابراہیم ! یقیناً آپ نے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ ‘‘ ( سورۃ الصافات : 105-107 )
یہی واقعہ قربانی کی بنیاد بنا اور اسی کی یاد میں ہر سال عید الاضحی کے موقع پر مسلمان دنیا بھر میں قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت ، خلوص اور اللہ کے حکم کی تعمیل کی علامت ہے ۔
قربانی کی شرعی حیثیت :
قربانی کی شرعی حیثیت اسلامی فقہ کے مختلف مکاتبِ فکر میں مختلف بیان کی گئی ہے ، لیکن یہ سب متفق ہیں کہ قربانی ایک عظیم اور اہم عبادت ہے ۔ جو عید الاضحی کے ایام یعنی 10 سے 12 ذوالحجہ تک کی جاتی ہے۔ ان دنوں کو ’’ ایام النحر ‘‘ کہتے ہیں ۔ قربانی ہر اُس مسلمان پر واجب ہے جوبالغ ، عاقل ، مقیم ہو ( مسافر نہ ہو ) صاحبِ نصاب ہو ( زکوٰۃ کے لیے مقرر کردہ مال کے برابر مال رکھتا ہو ) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿> فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر﴾ ( سورۃ الکوثر :2)
’’ پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔ ‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی اس عمل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’ یوم النحر ( دس ذی الحجہ ) کو آدم کی اولاد کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔ ‘‘ ( ترمذی )
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ایک مرتبہ صحابہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے ۔ اُنہوں نے پوچھا اس پر ہمیں کیا ملے گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ۔ اُنہوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی ۔ ‘‘ ( مسنداحمد )
’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور آپ ( ہر سال ) قربانی کرتے رہے ۔ ‘‘ ( ترمذی )
علاوہ ازیں استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں ۔ ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ جس شخص میں وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے ۔ ‘‘ ( ابن ماجہ )
قربانی کی روح :
قربانی کی روح ( (The Spirit of Sacrifice )ایک نہایت اہم اور گہرا مفہوم رکھتی ہے ، جو صرف جانور ذبح کرنے کے عمل تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل فکری ، روحانی اور اخلاقی پیغام چھپا ہے ۔ قربانی کا سب سے بڑا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔ یعنی اصل قربانی دل کی نیت اور اللہ سے تعلق کا نام ہے ۔ جب انسان اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اللہ بہترین بدلہ دیتا ہے ۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنےکا عمل نہیں ، بلکہ اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ کے حکم کے تابع کرنا بھی قربانی ہے ۔ اپنی انا ، تکبر ، لالچ ، حسد وغیرہ کو ختم کرنا اصل قربانی ہے ۔ قربانی کا گوشت بانٹنا ہمیں سخاوت ، ایثار ، اور ضرورت مندوں کی مدد کا سبق دیتا ہے ۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہماری خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا اسلام کا ایک اہم پہلو ہے ۔ غریبوں اور محتاجوں کو یاد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ قربانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ اللہ نے ہمیں جو رزق ، مال ، صحت دی ہے ، وہ اُسی کی عطا کردہ ہے ۔ ہم جو کچھ بھی قربان کرتے ہیں ، وہ دراصل اسی کی عطا ہے ۔
معاشرتی پہلو :
قربانی کا معاشرتی پہلو اسلامی معاشرت میں بہت اہمیت رکھتا ہے ، کیونکہ یہ عبادت صرف فردِ واحد کا ذاتی عمل نہیں ، بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو پورے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے ۔ قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنا ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں ، خاص طور پر غریب ، مسکین اور محتاج افراد کو ۔ یہ عمل معاشرتی مساوات اور ہمدردی کو فروغ دیتا ہے ۔ عیدالاضحی کے دن غریب طبقے کو وہ گوشت ملتا ہے جو عام دنوں میں شاید اُن کی دسترس میں نہ ہو ۔ یہ وقتی طور پر سہی ، مگر اُن کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ہوتا ہے ۔ قربانی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں ، خیرات کرتے ہیں ، اور اجتماعی عبادت میں شریک ہو کر معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں ۔ یہ عمل ہمیں ایثار ، قربانی ، اور دوسروں کی فلاح کے لیے کچھ کر گزرنے کا سبق دیتا ہے ۔ اس سے فرد کا رویہ مثبت ہوتا ہے اور وہ معاشرے میں ایک ذمہ دار رکن بن کر سامنے آتا ہے ۔ قربانی کے دنوں میں جانوروں کی خرید و فروخت ، چارے کا کاروبار ، قصابوں کی خدمات ، اور گوشت کی تقسیم سے کئی افراد کو روزگار ملتا ہے ، جو کہ ملکی و قومی معیشت کے لیے بہت فائدہ مند ہے ۔
عصرِ حاضر میں قربانی کا صحیح فہم :
عصرِ حاضر میں قربانی کا صحیح فہم صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ اس کی روح اور مقصد کو سمجھنا ازحد ضروری ہے ۔ قربانی دراصل ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایثار ، اطاعت اور خلوص نیت کا اظہار ہے ۔ جبکہ اس کے پیچھے ایک روحانی پیغام ہے — کہ انسان اپنی خواہشات ، مال ، وقت اور راحتوں کو اللہ کے لیے قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرے ۔ بدقسمتی سے آج قربانی کو محض ایک رسم و رواج بنا دیا گیا ہے ۔ مہنگے جانور ، دکھاوا ، سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز کی نمائش ، اس عظیم عبادت کی روح کو متاثر کر رہی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ قربانی کو اللہ کے لیے خالص نیت سے کریں، نمود و نمائش سے بچیں ، اور قربانی کے اصل مقصد کو سمجھیں ۔