Advertisements

پنجاب میں میڈیا کومکمل آزادی حاصل ہےعظمیٰ زاہد بخاری

Punjab Minister for Information Azma Zahid Bukhari attend CPNE Punjab Committee Meeting
Advertisements

میں نے کبھی کوئی خبر رکوانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی صحافی کو نوکری سے نکلوایا  صوبائی وزیر اطلاعات کا سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے اجلاس میں اظہارخیال

 ملک میں آزادی صحافت کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس طرح کی پابندیاں مارشل لاء دور میں بھی نہیں دیکھیں چیئرمین سی پی این سی پنجاب کمیٹی ایاز خان

Advertisements

 الیکٹرانک میڈیا کو بھی 95 فیصد ادائیگیاں آن لائن کی جارہی ہیں۔ 10 ہزار ڈمی اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کئے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

صوبائی کابینہ نے ریجنل اخبارات کو بھی سرکاری  ٹینڈر اشتہارات جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔۔ڈی جی پی آر  پنجاب غلام صغیر شاہد

لاہور(پ ر)  صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب میں میڈیا کومکمل آزادی حاصل ہے، بقایاجات میں سے اخبارات کو 84 کروڑ روپے کے واجبات اداکئے جاچکے ہیں، کارکنان کو تنخواہیں نہ دینے والے اداروں کے اشتہارات روک لئے جائیں گے۔ سی پی این سی پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان کا کہنا ہے ملک میں آزادی صحافت کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس طرح کی پابندیاں مارشل لاء دور میں بھی نہیں دیکھیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز(سی پی این ای) پنجاب کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں سی پی این ای کے مرکزی صدر کاظم خان ، ارشاد احمد عارف، اعجاز الحق سمیت دیگر ذمے داران وممبران شرکت کی۔ صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب اعظمی بخاری اور ڈائریکٹرجنرل شعبہ تعلقات عامہ پنجاب غلام صغیرشاہد نے خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر طلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں آزادی صحافت کو کوئی خطرہ نہیں ، یہاں میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ میں نے کبھی کوئی خبر رکوانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی صحافی کو نوکری سے نکلوایا ہے حالانکہ اس حوالے سے قانون موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ صحافت کے نام پر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسی بیماری ہے جس کا علاج پیناڈول سے ممکن نہیں یہ موذی مرض بن چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی پی این ای کے ساتھ مل کر دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ایک کمیٹی جرنلسٹ کی تعریف کیا ہوگی؟ اس پرکام کررہی ہے  جبکہ دوسری کمیٹی ڈمی اخبارات کی نشاندہی اور ان کے ڈیکلریشن  منسوخ کئے جانے سے متعلق کام کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے میڈیا ہائوسز جو کارکنان کوتنخواہیں ادا نہیں کررہے، پہلے یہ طے پایا تھا کہ ایسے اداروں کو واجبات کی ادائیگیاں روک دی جائیں لیکن اب حوالے سے کچھ تجاویز آئیں کی ادائیگیاں روکنے کی بجائے ایسے اداروں کے اشتہارات بند کردیئے جائیں۔ اس وقت 84 کروڑ روپے کے واجبات کی ادائیگیاں ہوچکی ہیں۔ ماضی میں قانونی تقاضے پورے کئے بغیر اشتہارات جاری کئے جاتے رہے۔ ان کی ادائیگوں کے کلیم ہمارے پاس پڑے ہیں جن کا جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کواشتہارات جاری کرنے اور ادائیگیوں کے طریقہ کار کو اب تو وفاقی اور سندھ حکومت بھی اپنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرنلسٹ سپورٹ فنڈ کے لئے بجٹ کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ صحافیوں کے لئے صحت کارڈ جاری کیا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈ بند کیا گیا ہے لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ کارآمد ہے اور لوگ اس پر علاج بھی کروا رہے ہیں۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جرنلسٹ ہائوسنگ سوسائٹی فیز ٹو کے لئے وزیراعلی پنجاب رواں سال ستمبر میں بیلٹنگ کریں گی۔ اس میں میڈیا ورکرز کو بھی شامل کررہے ہیں اور ان کو بھی پلاٹ ملیں گے۔

سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے چیئرمین ایاز خان نے کہا کہ ملک میں آزادی صحافت کی صورت حالتشویش ناک ہے۔اس طرح کی پابندیاں مارشل لا ء دور میں بھی نہیں تھیں۔ ریاست جب خبریں بتانے کی بجائے چھپانے پر آجائے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی آواز کو مکمل طور پر دبایا جارہا ہے۔ ملک میں ایک طرف یو م استحصال کشمیر منایا جارہا ہے لیکن ملک کے اندر سب کا استحصال ہورہا ہے۔ سی پی این ای کے مرکزی صدر اور پنجاب کمیٹی کے رکن کاظم خان کا کہنا تھا ملک میں اس وقت بدترین سنسرشپ ہے۔اب تو سوچتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے۔ پنجاب میں وزیراطلاعات اور ڈی جی پی آر کے ساتھ مل کر اخبارات وجرائد کے لئے کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ادائیگیوں کے نظام کو بہتر کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وزیراطلاعات پنجاب اور ڈی جی پی آر اخبارات پر فیصلے مسلط کرنے کی بجائے مشاورت سے کام کررہے ہیں۔ سی پی این ای کی کوششوں سے اخبارات کو ریلیف ملا ہے اور ان کو اشتہارات کے واجبات کی ادائیگیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں اخبارات کو واجبات کی ادائیگیاں سب سے بہتر انداز میں ہورہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت  10ہزار کے قریب ڈمی اخبارات ہیں جن کے ڈیکلیئریشن منسوخ ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ڈی جی پی آر کے مطابق314 قومی اورریجنل اخبارات کو اشتہارات مل رہے ہیں۔ 150 اخبارات وجرائد ایسے ہیں جو صرف اشتہارات کے لئے شائع ہوتے ہیں۔کاظم خان نے بتایا کہ ڈی جی پی آر کے ساتھ گزشتہ میٹنگ میں طے پایا تھا کہ ایسے اخبارات جو ورکرز کو تنخواہیں نہیں دیتے ان کو سرکاری ادائیگیاں بند کردی جائیں تاہم اس پر پی بی اے کی طرف سے کچھ سفارشات آئیں ۔جن میں کہا گیا ہے کہ ایسے اداروں کی ادائیگیاں روکنے کی بجائے اشتہارات بند کردیئے جائیں۔انہوں نے تجویز دی کہ سی پی این ای کو ہرمہینے ایک سیمینار ضرور کرنا چاہیے۔ سی پی این ای کے ذمے داران کو سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے۔ پوڈکاسٹ، وی لاگ اور تجزیئے کرنا چاہیں۔ اخبارات کو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے مقابلے میں کم مشکلات کاسامنا ہے۔

سی پی این ای کے سابق سیکرٹری جنرل اعجاز الحق نے کہا کہسی پی این ای کو اس پربھی کوئی اعتراض نہیں کہ جو ادارے میڈیا ورکرز کو تنخواہیں ادانہیں کرتے ان کی ادائیگیاں روک دی جائیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایسے ادارے جن کو اشتہارات کی ادائیگیوں کی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ان کو واجبات کی ادائیگی کے لئے سندھ حکومت کی طرز پر تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے۔ سی پی این ای کے سینیئررہنما اورسابق صدر ارشاد احمد عارف کاکہنا تھاکہ اس وقت ریاست اور ریاستی ادارے ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے۔ صحافی قربانیاں دے رہے ہیں اور ہرممکن حد تک حق اورسچ کی آواز بلند کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں جبر اور گھٹن کا ماحول ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ صحافت مردہ ہوچکی ہے۔ جس بہادری اور دلیری سے صحافی آج اپنا کردار ادا کررہے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔آزادی صحافت کے حوالے سے جن لوگوں کی آج ہم مثالیں دیتے ہیں وہ آج کے دور میں ہوتے تو شاید ایک دن بھی صحافت نہ کرپاتے۔ آج اگر صحافیوں کے پروگرام بند کئے جارہے ہیں ، انہیں نوکریوں سے نکلوایا جاتا ہے تو یقینا اسی وجہ سے کہ وہ بولتے ہیں ۔ آج بھی میڈیا ہرممکن حدتک عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا آج ہمیں اگر 30 فیصد بھی بولنے کی آزادی ہے تو 100 فیصد آزادی کے چکر میں 30  فیصد سے بھی ہاتھ دھونا عقلمندی نہیں ہے۔ ۔انشاء اللہ اس جبر،گھٹن اورغیرفطری حالات سے خیربرآمد ہوگی۔سی پی این ای کے رکن  ذوالفقار راحت نے کہا کہ اس وقت کہنے کو  توملک میں جمہوری نظام ہے لیکن اس نظام کو جمہوری کہنا خود جمہوریت کی توہین ہے۔ ملک میں نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی صحافت اور آزادی اظہار کی آزادی ہے۔ اس نظام نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سی پی این ای کے پلیٹ فارم سے ہمیں آزادی صحافت کے حوالے سے ایسی شمع روشن کرنی چاہیے جو آگے چل کر روشنی کا مینار بن سکے۔سی پی این ای کے رکن عرفان اطہرقاضی نے کہا ہمیں اپنے اداروں اور ورکرز دونوںکو ہی بچانا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی آزادی صحافت کی جدوجہد بھی جاری رکھنی ہے۔ ملک بھر میں صحافیوں کیخلاف مقدمات کے اندراج اور قتل سے متعلق سی پی این ای ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ جاری کرے۔

ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے کہاکہ صوبائی کابینہ نے ریجنل اخبارات کو بھی سرکاری  ٹینڈر اشتہارات جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار اخبارات کو واجبات کی ادائیگیاں آن لائن کی جارہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی 95 فیصد ادائیگیاں آن لائن کی جارہی ہیں۔ 10 ہزار ڈمی اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کئے جانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔اجلاس میں اویس رضی، زبیرمحمود، فہد صفدر، اسلم میر، سید مصور زنجانی، ضیا تنولی، عثمان غنی، عرفان اطہرقاضی، صفدرعلی خان، ذوالفقارعلی راحت، وقاص طارق،امتیاز روحانی، اسدروحانی، شہزاد عامر، فرخ شہبازوڑائچ اور ندیم نثار بھی شریک ہوئے۔