Advertisements

برطانیہ میں اشتعال انگیز احتجاج اور پاکستان کا سفارتی ردِعمل

Advertisements

اداریہ — 28 دسمبر 2025

برطانوی شہر بریڈ فورڈ میں پاکستانی قونصلیٹ کے سامنے ہونے والا احتجاج اور اس دوران پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف دی جانے والی سنگین دھمکیاں ایک نہایت تشویشناک پیش رفت ہیں۔ ایسے واقعات محض سیاسی اختلاف کا اظہار نہیں بلکہ ریاستی سلامتی، قومی وقار اور بین الاقوامی قوانین سے براہِ راست تصادم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں پاکستان کی جانب سے برطانیہ کے قائم مقام ہائی کمشنر کو ڈیمارش جاری کرنا ایک بروقت، ذمہ دارانہ اور ناگزیر سفارتی اقدام تھا۔

Advertisements

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جمہوری معاشروں میں احتجاج اور اظہارِ رائے ایک بنیادی حق ہے، تاہم یہ حق اس وقت ناقابلِ قبول بن جاتا ہے جب اس کی آڑ میں تشدد، نفرت انگیزی اور قتل کی کھلی دھمکیاں دی جائیں۔ احتجاج کے دوران فیلڈ مارشل کے خلاف کار بم حملے جیسے بیانات نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہیں بلکہ میزبان ملک کے داخلی امن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔

وزارتِ خارجہ کا یہ مؤقف بجا ہے کہ برطانوی سرزمین کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ برطانیہ، جو قانون کی بالادستی اور جمہوری اقدار کا دعویدار ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر ہونے والی ایسی سرگرمیوں کو محض آزادیٔ اظہار کے دائرے میں محدود نہ سمجھے بلکہ انہیں قانون کے تحت جانچے۔ برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے شواہد طلب کرنا ایک قانونی تقاضا ہو سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور سفارتی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہرین کو منظم کرنا اور نفرت انگیز مواد پھیلانا عصرِ حاضر کا ایک خطرناک رجحان بنتا جا رہا ہے۔ اگر ایسے عناصر کے خلاف بروقت اور مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو یہ طرزِ عمل مستقبل میں دیگر ممالک کے لیے بھی ایک ناپسندیدہ مثال قائم کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ خود برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام کے وقار سے بھی جڑا ہوا ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سیاسی اختلاف کے اظہار میں ذمہ داری، برداشت اور قانون کی پاسداری کو مقدم رکھنا چاہیے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت، تشدد اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان کا سفارتی ردِعمل اسی اصولی مؤقف کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد تصادم نہیں بلکہ ریاستی وقار، قومی سلامتی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کا تحفظ ہے۔