وزیرِاعظم کا آئینی شفافیت اور جمہوری احتساب کی سمت ایک مضبوط قدم
اداریہ —-11 نومبر 2025
وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم میں وزیراعظم کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ دینے کی تجویز واپس لینے کی ہدایت بلاشبہ ایک جرات مندانہ، دانشمندانہ اور جمہوری فیصلہ ہے۔ ان کا یہ قدم اس اصول کی تصدیق کرتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی سب پر یکساں ہونی چاہیے، چاہے وہ عام شہری ہو یا ملک کا چیف ایگزیکٹو۔
یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب وزیراعظم کو آذربائیجان کے دورے سے واپسی پر معلوم ہوا کہ ان کی جماعت کے چند سینیٹرز نے سینیٹ میں ایک ایسی شق پیش کر دی ہے جس میں وزیراعظم کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ دینے کی تجویز شامل تھی۔ شہباز شریف نے فوراً اس پر ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ شق کابینہ کی منظوری سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سینیٹرز کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یہ شق فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی۔
وزیرِاعظم کا یہ بیان کہ “منتخب وزیراعظم یقیناً قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہے” دراصل پاکستان کے جمہوری نظام کی روح کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اس بات کا اعلان ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کسی امتیاز کے بغیر قانون کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہی طرزِ حکمرانی ملک میں اعتماد، شفافیت اور سیاسی استحکام کے فروغ کی ضمانت دیتا ہے۔
سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکمرانوں نے اپنے لیے خصوصی رعایتوں یا استثنیٰ کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی، اس سے عوامی اعتماد مجروح ہوا اور ریاستی اداروں کے درمیان توازن بگڑا۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ فیصلہ نہ صرف اس منفی رجحان کی نفی کرتا ہے بلکہ جمہوری اقدار کے تسلسل کو تقویت بھی دیتا ہے۔ ان کا قدم یہ پیغام دیتا ہے کہ قیادت وہی کامیاب ہوتی ہے جو خود کو بھی قانون کے دائرے میں رکھتی ہے۔
27ویں آئینی ترمیم کا سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا پارلیمانی عمل کی کامیابی ضرور ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس ترمیم کو قومی اسمبلی میں منظور کرتے وقت ایسے تمام پہلوؤں کو حذف کیا جائے جو حکومتی شفافیت یا احتساب کے عمل پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔
وزیرِاعظم کے اس بروقت اقدام نے یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوری نظام میں سب سے بڑی طاقت قانون کی بالا دستی ہے، نہ کہ اقتدار کی کرسی۔ یہی وہ رویہ ہے جو اداروں کو مضبوط، عوام کو پُراعتماد اور نظام کو مستحکم بناتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلے طاقت یا مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول، آئین اور عوامی امانت کے تقاضوں کے مطابق کرے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا یہ قدم مستقبل میں سیاستدانوں کے لیے ایک مثال ہے کہ جمہوریت کی اصل روح خود احتسابی، دیانت اور قانون کے احترام میں مضمر ہے۔ اگر یہی روایت قائم رہی تو یقیناً پاکستان ایک زیادہ منصفانہ، شفاف اور مستحکم سیاسی نظام کی جانب بڑھ سکے گا۔

