Advertisements

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نجی بینک کی بینکنگ محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی، فراڈ سے متاثرہ شہری کو 8 لاکھ روپے کی رقم واپس کرنے کا محتسب کا فیصلہ برقرار

Dr Arif Alvi
Advertisements

اسلام آباد۔ 25 نومبر: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نجی بینک کی بینکنگ محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے فراڈ سے متاثرہ شہری کو 8 لاکھ روپے کی رقم واپس کرنے کا محتسب کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نویرہ (شکایت کنندہ) کس مسلم کمرشل بینک کی گلشن راوی برانچ لاہور میں اکاو ¿نٹ تھا۔ چار مختلف اے ٹی ایم ٹرمینلز پر اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے شکایت کنندہ کے اکاو ¿نٹ سے ڈیبٹ ہونے کے بعد اسے اپنے پیسے کھونے پڑے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ٹرانزیکشن غیر مجاز تھی کیونکہ یہ انہوں نے نہیں کی اور اے ٹی ایم کارڈ ان کے پاس تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رقوم کے اکاو ¿نٹ سے نکالنے کے بارے میں کوئی ایس ایم ایس موصول نہیں ہوا سوائے اس کے کہ 24-01-2019 کو موصول ہونے والے ایک پیغام میں اس کے اکاو ¿نٹ سے 200,000 روپے نکالنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ ایس ایم ایس موصول ہونے پر انہوں نے بینک میں شکایت درج کرائی، تاہم اسے کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد، اس نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا تاکہ اس کے اکاو ¿نٹ سے دھوکہ دہی سے نکالے گئے 800,000 روپے کی واپسی ہو سکے۔ بینکنگ محتسب نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شکایت کنندہ کے اضافی رابطہ نمبر بینک کے ریکارڈ میں اکاو ¿نٹ ہولڈر کی جانب سے کسی اجازت کے بغیر شامل کیے گئے تھے، اس لیے شکایت کنندہ کو نقد رقم نکالنے کے لین دین سے متعلق ایس ایم ایس موصول نہیں ہوسکا۔ مزید برآں، بینک نے اپنا پن کوڈ 21.01.2019 کو، لین دین سے صرف تین دن پہلے، ایک جعل ساز کی طرف سے فون کال موصول ہونے کے بعد تبدیل کر دیا تھا کیونکہ فون بینکنگ آفیسر نے کال کرنے والے کی تحقیقات نہیں کی تھیں۔ بینک نے سماعت کے دوران تسلیم کیا کہ کال کرنے والے کی آواز خاتون شکایت کنندہ کی آواز سے مختلف تھی۔ مزید برآں، تاریخ اور وقت کے ساتھ متنازعہ لین دین کی قابل فہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور سنیپ شاٹس نظر نہیں آرہے تھے کیونکہ بینک کو اے ٹی ایم کیبنز/کمروں میں کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایات پر عمل درآمد میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تھا تاکہ ثانوی ثبوت حاصل کیا جا سکے۔ محتسب نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بینک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹھوس معقول شواہد کے ساتھ یہ ثابت کرے کہ لین دین شکایت کنندہ کے ذریعہ کیا گیا تھا یا اس کے مینڈیٹ کے تحت کسی شخص نے کیا تھا۔ اس لیے محتسب نے بینک کو حکم دیا کہ وہ شکایت کنندہ کے اکاو ¿نٹ میں 800,000 روپے کی رقم جمع کر کے نقصان کو پورا کرے۔ بعد میں، بینک نے صدر مملکت کے پاس ایک اپیل دائر کی، جسے انہوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ بینک اپنی قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور بینکنگ محتسب کے احکامات کو رد کرنے کا کوئی جواز فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ انہوں نے قرار دیا کہ قانون کے مطابق بینکنگ محتسب کا کام بینکنگ کی بدعنوانی، بدانتظامی، غلط کاموں، دھوکہ دہی سے متعلق لین دین، بینک حکام کے بدعنوان اور غیر اخلاقی طریقوں سے متعلق شکایات کی انکوائری کرنا ہے اور انکوائری کے اختتام پر مناسب احکامات جاری کرنا ہے۔ صدر مملکت نے نجی بینک کی اپیل کو مسترد کر دیا کیونکہ اس معاملے میں بینکنگ محتسب کے نقطہ نظر میں کوئی خامی نہیں پائی گئی۔