اسلام آباد۔18جولائی (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ خصوصی اقتصادی زونز میں سعودی عرب اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کے سرمایہ کار مختلف صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر ہو چکے ہیں، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے میثاق معیشت کر کے اس پر تسلسل سے عمل کرنا ہو گا، 2015ء سے 2018ء کے دوران سی پیک کے تحت 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی، گذشتہ چار سال کے دوران سی پیک کے تحت تمام منصوبوں کو منجمد رکھا گیا، مشرق میں اپنے ہمسایہ ملک کو معاشی میدان میں شکست فاش دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو اسلام آباد ماڈل خصوصی اقتصادی زون کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر ہو چکے ہیں، مدد کرنے والے دوست ممالک کے شکرگزار ہیں، قرضہ دینے والے دوست ممالک کے سربراہان سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں زراعت، آئی ٹی اور معدنیات سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کا ری کریں اور اربوں ڈالر منافع کمائیں، اس سے پاکستان بھی خوشحال ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونز میں سعودی عرب اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کے سرمایہ کار مختلف صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں خصوصی اقتصادی زونز میں اراضی کو مخصوص مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس پر سٹے بازی کی گئی، اگر ہمارے کرتوت یہی رہے تو ہمارے ملک کی حالت نہیں بدلے گی، ان خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا مقصد ملک میں سرمایہ کاری لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاولپور سولر پاور منصوبے کی زمین 90 سالہ لیز پر انتہائی کم قیمت پر دی گئی ہے، اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے سخت شرائط پر معاہدے کرنے چاہئیں، منظم منصوبہ بندی اور شفاف طریقہ سے پہلے آئیں اور پہلے پائیں یا قرعہ اندازی کے ذریعہ سرمایہ کاروں کو زمینیں الاٹ کی جائیں تاکہ سرمایہ کار خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے آسانی سے مشینری بھی درآمد کرسکیں، صنعتوں کے فروغ سے ملک ترقی کرے گا، مشرق میں اپنے ہمسایہ ملک کو معاشی میدان میں شکست فاش دیں گے، قرضوں سے جان چھوٹے گی اور ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں تاہم افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس منصوبہ پر کم از کم پانچ سال تاخیر سے آغاز کیا جا رہا ہے،یہ کئی سال پہلے مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت پورے ملک میں خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے جانے تھے، یہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، کراچی میں دھابیجی اقتصادی زون اور خیبر پختونخوا میں رشکئی میں اقتصادی زون مکمل ہونے والا ہے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ڈیزائن اور علاقے کی نشاندہی ہوچکی تھی تاہم ان منصوبوں پر گذشتہ چار سال کے دوران انتہائی سست روی سے کام کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت منصوبوں کا آغاز نواز شریف کی کاوش تھی، 2015ء سے 2018ء کے دوران سی پیک کے تحت 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی، اس میں بجلی کے منصوبے، اورنج لائن، سڑکوں، آبی منصوبے، پن بجلی منصوبے اور کوئلہ سے بجلی گھروں کے منصوبوں سمیت دیگر منصوبے شامل تھے، ان منصوبوں کو گذشتہ دور حکومت میں منجمد کر دیا گیا، پاک چین تعلقات کی نفی کرنے کی کوشش کی گئی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بڑا تعطل پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ چین ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ہائی ٹیک صنعت کی جانب منتقل ہو گیا ہے، ہمیں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں چین کی ٹیکنالوجی، مہارتوں سے استفادہ کرنا چاہئے اور چینی سرمایہ کاروں سے مل کر مشترکہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں، اس سے ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دینے اور مصنوعات کو برآمد کرنے میں اضافہ ہو گا اور پیداوار ، روزگار اور محصولات میں بھی اضافہ ہو گا لیکن بدقسمتی سے ماضی کی حکومت نے ان سب چیزوں کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توانائیاں چور، ڈاکو اور گالم گلوچ پر مرکوز کیں، موجودہ حکومت کے گذشتہ 15 ماہ اس آگ کو بجھانے میں لگے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ سال سیلاب نے ملک میں تباہی مچا دی، ملک میں ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آ گئی، سندھ میں کھجور کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو گئی، سیلاب سے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے بعض حصوں میں بھی تباہی آئی، ہم نے اس قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے دن رات کام کیا، وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور این ڈی ایم اے کے ذریعہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 100 ارب روپے تقسیم کئے، صوبوں نے اپنے وسائل سے اربوں روپے خرچ کئے، دوست ممالک نے بڑے پیمانے پر امداد بھیجی۔ شہباز شریف نے کہا کہ یوکرین جنگ کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہنگائی کے طوفان آیا، بدقسمتی سے گذشتہ سال ملک میں گندم کی پیداوار کم ہونے کے باعث بیرون ملک سے لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑے، تیل کی درآمد پر 27 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی کیلئے حکومت بالخصوص وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور وزارت خزانہ کی کاوشوں سے معاہدہ کرنے میں کامیابی ملی، دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے، ملک کے معاشی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں، بوسیدہ سٹرکچر میں تبدیلی لانی چاہئے، معیشت ، صنعت و حرفت، کاروبار اور زراعت کو ترقی دینی چاہئے، ہم نے اس حوالہ سے منصوبہ بندی کی ہے، ایس آئی ایف سی معاشی بحالی کیلئے تشکیل دیا گیا فورم ہے، ملک میں زراعت ، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں کی ترقی کیلئے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات کے نتیجہ میں جو بھی حکومت قائم ہو گی اسے ان خطوط پر دن رات کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس سستی دینا آسان کام نہیں، بجلی چوری اور لائن لاسز بڑا چیلنج ہے، سرکاری محکموں کی خرابیاں اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی جیسے مسائل کا سامنا ہے، خسارے میں چلنے والے اداروں پر 600 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں، گردشی قرضہ ایک اور چیلنج ہے، غریب آدمی پر بجلی کی قیمتوں کا مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے، کاروباری افراد پر یہ بوجھ ڈالیں گے تو وہ دنیا کا مقابلہ کس طرح کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود ملک کو آگے لے کر جانے کیلئے پرعزم ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط کے پابند ہیں، ماضی کی حکومت کی طرح غلطی نہیں کریں گے کہ معاہدہ کر کے توڑ دیں بلکہ معاہدہ کی پاسداری کریں گے، مشکلات اور چیلنجز کے باوجود ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر ر ہے ہیں، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے میثاق معیشت کرنا ہو گا جس پر تسلسل سے عمل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 22 کروڑ عوام کے مفاد کو ترجیح دینی ہو گی، ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کا مصمم ارادہ کرنا ہوگا، ہم دن رات محنت کر کے تمام منزلیں طے کریں گے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اسلام آباد ماڈل خصوصی اقتصادی زون کا سنگ بنیاد رکھا اور فائونڈیشن سٹون پر اپنے دستخط کئے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار مخدوم سید مرتضی محمود اور وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔