پیف آفٹرنون پرائیوٹ سکولز اساتذہ کرام استحصال کی بھینٹ
تحریر: جام بلال احمدشاہین فیروزہ
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا وہ میرا آقا ٹھہرا چاہے وہ مجھے اپنا غلام بنا لے یا آزاد کر دے ۔ان فرمان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اساتذہ کرام کی عزت و توقیر جتنی کی جائے کم ہے۔دنیا میں وہی ملک اور قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جن کا معیار تعلیم قابل ستائش ہوتا ہے۔جو ملک اور قوم تعلیم کو اپنا بوجھ سمجھتی ہیں تنزلی اور جہالت ان کا مقدر بنتی ہے۔پنجاب حکومت نے تعلیم کو اپنا بوجھ سمجھ کرکچھ پرائمری سرکاری سکولز جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے پہلے فیز میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پیف پارٹنرز کےحوالے کر دیے ہیں۔جوپیف پارٹنرز پہلے پیف کے سکول چلا رہے تھے ان کو بھی پرائمری سرکاری سکول دے دیے ہیں جو کہ بہت بڑی نا انصافی ہوئی ہے۔پیف میں ایسے بھی پیف پارٹنرز ہیں جن کے پاس کوئی پروفیشنل ڈگری نہیں ہے کچھ انڈر گریجوایٹ ہیں۔یہ پیف کی نوازش ہے کہ ان کوبادشاہ بنا دیاہے۔ جن کے پاس کرائے کا مکان اور موٹر سائیکل تک میسر نہیں تھا اب ان کے اپنا ذاتی پرشکوہ مکان اور لاکھوں روپے کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا وہ پھر سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ پیف کے سکولوں میں جو پہلے ٹیچرز پڑھا رہے ہیں جن کی تنخواہ پانچ سے 10 ہزار ہے اور فیمیل کی تنخواہ محض 5 ہزار عنایت کر کے احسان عظیم کیا جاتا ہے سرکاری پرائمری سکول جو اب پیف کے انڈر ہو رہے ہیں ان پیف کے سکولوں میں بھی اساتذہ کرام کی تنخواہ پانچ سے 10 ہزار ہوگی اور تعلیم یافتہ اساتذہ کرام کا معاشی استحصال ہوگا۔طلبا کی انرولمنٹ میں اضافہ ہوگا مگر تعلیم یافتہ اساتذہ کرام کا معاشی استحصال ہوگا۔پیف کی تمام تر توجہ پیف پارٹنرز کو مالی فائدہ فراہم کرنا اور انرولمنٹ میں اضافہ کرناہے۔پیف میں ٹیچرز کو سوتیلی ماں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔پیف میں اساتذہ کرام کا کوئی روشن مستقبل نہیں۔ پیف پارٹنر کے حسب سابق وارے نیارے ہوں گے۔قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگی۔وہ بھی شاندار گھر اور لاکھوں روپے کی گاڑیوں سیر و تفریح کریں گے۔ان کے بچے مستقبل کے ڈاکٹرز انجینئر پائیلٹ اعلی افسران بنیں گے۔جبکہ قابل ستائش نتائج پیش کرنے والے اساتذہ کرام کے سروں پر غربت اور مہنگائی کے مہیب سائے ہمہ وقت منڈلاتے رہیں گے۔ان کے بچے مستقبل کے مزدور ٹیبل مین چھابڑی فروش بنیں گے۔۔سرکاری سکول پیف کو تفویض کرنے کا خاطر خواہ فائدہ حکومت کو ہے نہ نئے اساتذہ کرام بھرتی کرنے پڑیں گے اور نہ ہی کوئی پینشن دینی پڑے گی۔میرے خیال میں معیار تعلیم کم ہوگا بہتری کی کوئی امید نہیں۔پرویز مشرف کی حکومت سے پہلے اساتذہ کرام کی تنخواہیں آٹے میں نمک کے برابر تھیں پرویز مشرف نے ان اساتذہ کرام کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا اور ان کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کیا کہ ہر نوجوان میل اور فیمیل استاد بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اور ان کے خوابوں کی تعبیر بھی ہوئی۔ مگر موجودہ حالات کے پیش نظر کوئی بھی معلم نہیں بنے گا۔کیونکہ استاد محترم کا چولھا مہنگائی کے اس دور ٹھنڈا رہے گا۔ 18 ۔2017 میں انصاف آفٹر نون سکولز پروگرام کا آغاز کیا گیا۔سرکاری پرائمری سکول فرسٹ ٹائم وہی سکول سیکنڈ ٹائم انصاف آفٹر نون ایلیمنٹری سکول بنایا گیا۔اس وقت کے وزیر تعلیم مراد راس کا یہ خیال تھا کہ ایک ہی بلڈنگ ہے بلڈنگ کے اخراجات ،فرنیچر اور دیگر اخراجات کی بچت ہے۔پہلی ترجیح سرکاری استاد محترم/ محترمہ اگر سرکاری معلم میسر نہیں ہے تو سکول کونسل کی مشاورت سے پرائیویٹ ٹیچر رکھ سکتے ہیں۔انصاف آفٹر نون سکول قابل ستائش پروگرام ہے۔طلبہ کی انرولمنٹ میں اضافہ بھی ہوا ہے قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہیڈ ٹیچر کی تنخواہ محض 18 ہزار روپے اور ٹیچر کی تنخواہ 15 ہزار روپے وہ بھی محض نو مہینے کی تنخواہ ادا کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نو ماہ کا پروجیکٹ ہے تین مہینے استادمحترم ریڑھی لگائے ،مزدوری کرے یا دیگر حسب مجبوری کام کرے۔تنخواہ بھی تین ماہ کے بعد دی جاتی ہے۔۔امسال انصاف آفٹر نون پروگرام میں ایک اور سیشن کے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیاہے مگر افسوس!!اساتذہ کرام کی تنخواہ میں اضافے کا نوٹفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا۔ تنخواہ بڑھانے کی محض طفل تسلی دی جاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ اساتذہ کرام کی تذلیل ہو رہی ہے۔پرائمری سرکاری سکولز میں کیئر گور کی تنخواہ صرف آٹھ ہزار ہے۔ یہی ناانصافی فیڈر ٹیچرز کے ساتھ ہورہی ہے۔ چنانچہ پرائیویٹ سکولزکے مالکان لاکھوں روپے کما رہے ہیں جن کے پاس نہ کوئی پروفیشنل ڈگری ہے نہ ان کو ایڈمنسٹریشن کا پتہ ہے بس دونوں ہاتھوں سے فیسیں بٹور رہے ہیں اور ان پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کی تنخواہ حسب روایت پانچ اور 10 ہزار ہےمہنگائی کے اس ہوش رو با دور میں معمار قوم دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر فورم پر اساتذہ کرام کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کی خاطر خواہ تنخواہیں ہیں اور ان کا مستقبل تابناک ہے۔ عصر حاضر میں میرے ملک میں اساتذہ کرام زیر عتاب ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔فی الوقت صوبائی وزیر تعلیم محترم سکندر حیات صاحب پنجاب میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھتے ہیں موصوف سے استدعاءہے کہ ان اساتذہ کرام کی تنخواہیں بڑھائی جائیں ان کا روشن مستقبل کیا جائے پیف پارٹنرز اور ہر تعلیمی یافتہ نوجوان کو ایک ایک سکول دیا جائے نوجوانوں کی بے روزگاری ختم کی جائے نوجوانوں کا روشن مستقبل کیا جائے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کا سرمایہ افتخار نوجوان ہوتے ہیں لہذا ان نوجوانوں کو سرمایہ افتخار سمجھا جائے چنانچہ پاکستان ترقی کی شاہرہ پر گامزن ہوگا۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔؟
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے