پاک سعودی دفاعی معاہدہ: خطے میں نئی اسٹریٹیجک سمت اور بھارتی تشویش
اداریہ — 19 ستمبر 2025
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان "اسٹریٹیجک باہمی دفاعی معاہدے” پر دستخط ایک اہم اور تاریخی پیشرفت ہے جس نے نہ صرف دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کیا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی نئی جہت فراہم کی ہے۔ معاہدے کے تحت اگر کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت ہوتی ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی سلامتی، علاقائی استحکام اور حرمین شریفین کے تحفظ کے حوالے سے اب ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں۔
یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نئے چیلنجز اور خطرات جنم لے رہے ہیں۔ دہشت گردی، فلسطین میں جاری بحران، یمن کی صورتحال اور عالمی سطح پر طاقتوں کی کشمکش ایسے عوامل ہیں جو خطے کے سکیورٹی ڈھانچے کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی اتحاد نہ صرف باہمی تحفظ کو یقینی بنائے گا بلکہ امن قائم کرنے کی مشترکہ کوششوں کو بھی تقویت دے گا۔ اس معاہدے کی کامیابی میں پاکستانی فوجی قیادت کا کردار بھی قابلِ ذکر ہے، جس نے دفاعی صلاحیتوں کے انضمام اور قریبی تعاون کو ممکن بنایا۔
تاہم، اس معاہدے پر بھارت کی تشویش کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پیشرفت کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ دراصل بھارت کو یہ خدشہ ہے کہ پاک سعودی اتحاد خطے میں اس کے اسٹریٹیجک منصوبوں اور اثرورسوخ کو محدود کر سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب بھارت مشرقِ وسطیٰ میں توانائی اور تجارتی مفادات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، پاکستان کا سعودی عرب جیسے طاقتور ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ نئی سفارتی اور سکیورٹی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارت خود خلیجی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی دوڑ میں ہے اور لاکھوں بھارتی شہری ان ممالک میں مقیم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا یہ معاہدہ نئی سفارتی رقابت کو ہوا دے سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ امن، تعاون اور خطے کی سلامتی کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔ بھارت اگر اسے خطرہ سمجھتا ہے تو یہ اس کے اپنے اسٹریٹیجک خدشات کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی اتحاد نہ صرف دونوں ممالک بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی اہم سنگِ میل ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاہدے کے تحت تعاون کو عملی جامہ پہنایا جائے، مشترکہ فوجی مشقوں اور دفاعی منصوبہ بندی کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ ہر طرح کے ممکنہ خطرے کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔