دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم — ریاست کا دوٹوک پیغام
اداریہ (14 نومبر 2025)
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ایوانِ صدر میں ملاقات ملکی سلامتی کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں نہایت اہم پیش رفت ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ غیر ملکی سرپرستی یافتہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اُن کے مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی۔ یہ عزم اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور امن کے قیام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔
گزشتہ دو روز کے دوران ملک کو دہشت گردی کے دو بڑے اور افسوسناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے ایک بار پھر دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔
پہلا واقعہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں پیش آیا، جہاں کیڈٹ کالج وانا پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز کی بروقت اور بہادرانہ کارروائی کے نتیجے میں تمام حملہ آور خوارج ہلاک کر دیے گئے جبکہ 650 طلبا و اساتذہ کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔ یہ آپریشن اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی افواج ملک کے مستقبل، یعنی نوجوان نسل، کے تحفظ کے لیے ہر لمحہ تیار اور چوکس ہیں۔
دوسرا اندوہناک واقعہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں ضلع و سیشن کورٹ کی عمارت کے باہر خودکش دھماکے میں 12 افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہوئے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب اسلام آباد میں بین الاقوامی نوعیت کی سرگرمیاں جاری تھیں، جن میں انٹر پارلیمنٹری اسپیکرز کانفرنس اور مارگلہ ڈائیلاگ شامل تھے، جبکہ راولپنڈی میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کرکٹ میچ بھی ہو رہا تھا۔
ذرائع کے مطابق اس دھماکے کے پیچھے افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں اور بھارتی سرپرستی یافتہ عناصر کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ افغان سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر دھماکے سے کئی گھنٹے قبل اسلام آباد کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی گئیں، جو اس دہشت گردی میں بیرونی مداخلت کا واضح ثبوت ہیں۔
یہ دونوں واقعات اس امر کے عکاس ہیں کہ پاکستان کے دشمن نہ صرف سرحدوں کے پار بلکہ فکری و سوشل میڈیا محاذوں پر بھی سرگرم ہیں۔ ایسے حالات میں قومی قیادت کا اتحاد، سویلین و عسکری اداروں کی یکجہتی، اور عوام کا اعتماد سب سے بڑی طاقت ہیں۔
ریاست پاکستان کا پیغام بالکل واضح ہے:
دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
لیکن ساتھ ہی ضروری ہے کہ اس جنگ کو صرف عسکری نہیں بلکہ فکری اور معاشی محاذ پر بھی لڑا جائے۔ نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے تعلیم، روزگار اور قومی ہم آہنگی کے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہیں۔
قوم نے ماضی میں بھی قربانیاں دے کر امن قائم کیا ہے، اور ان شاءاللہ اب بھی یہ جنگ متحد ہو کر جیتی جائے گی۔ پاکستان کے دشمنوں کے لیے یہی سب سے مؤثر جواب ہے۔

