عالمی سطح پر پاکستان کا کردار: خطے میں امن اور تعاون
2025 اداریہ—12 ستمبر
موجودہ عالمی بے یقینی کے دور میں پاکستان کے کردار کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، بڑی طاقتوں کے درمیان رقابت، اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے خطرات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کے اقدامات نہ صرف خطے کے توازن بلکہ عالمی ہم آہنگی پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان نے قیامِ پاکستان سے ہی ہمیشہ مکالمے، انصاف اور تنازعات کے پُرامن حل کی وکالت کی ہے۔ افریقہ اور ایشیا میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت سے لے کر فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے تک، پاکستان کی خارجہ پالیسی اصولوں پر مبنی رہی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کی بحالی میں پاکستان کا کردار اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اسلام آباد نے تاریخ کے نازک لمحات میں عالمی امن کے لیے پل کا کردار ادا کیا۔
گزشتہ دہائیوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں محاذِ اول پر کھڑے ہو کر بھاری قیمت ادا کی۔ ہزاروں شہری اور فوجی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جبکہ ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ لیکن ان قربانیوں کے باوجود پاکستان نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ امن ہی پائیدار مستقبل کی ضمانت ہے۔ آج پاکستان کا انسدادِ دہشت گردی کا تجربہ کئی ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے قدرتی طور پر جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک پل بناتی ہے۔ سی پیک اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے، تجارت اور توانائی میں تعاون پورے خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اور اقتصادی تعاون تنظیم جیسے فورمز میں فعال کردار ادا کرکے بھی کثیرالجہتی کی اہمیت اجاگر کر رہا ہے۔ البتہ جنوبی ایشیا بدقسمتی سے دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جو سب سے کم مربوط ہیں اور اس کی بڑی وجہ سیاسی کشیدگی اور حل طلب تنازعات ہیں۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ یہ مؤقف صرف اصولی نہیں بلکہ خطے کے استحکام کی ضمانت ہے۔
پاکستان کی عالمی شناخت کا ایک اور اہم پہلو اقوام متحدہ کے امن مشنز میں شمولیت ہے۔ پاکستانی فوجی دستے دنیا کے کئی شورش زدہ علاقوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ پاکستان امن قائم رکھنے والے سب سے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ملک دنیا بھر میں انسانی خدمت اور تنازعات کے حل کے لیے پُرعزم ہے۔
تاہم دنیا اب نئے چیلنجز سے دوچار ہے۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی، ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی قوم پرستی نے خارجہ پالیسی کے دائرہ کار کو وسیع کردیا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے واضح کردیا کہ ترقی پذیر ممالک کس قدر ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان نے اس کے بعد ماحولیاتی انصاف کی وکالت کرتے ہوئے امیر ممالک سے اپنے وعدے پورے کرنے اور متاثرہ ممالک کی مالی مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ کردار صرف پاکستان کو تحفظ دینے کے لیے نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں پاکستان کو علمی اور ٹیکنالوجی کی سفارت کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ آبادی کا دو تہائی حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور اگر انہیں تعلیم و تحقیق کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ نوجوان پاکستان کا تشخص دنیا میں ایک پرامن اور ترقی پسند قوم کے طور پر اجاگر کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا کردار صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے عملی اقدامات میں ڈھلنا ہوگا۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنا کر، معاشی شراکت داری کو متنوع بنا کر اور بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرکے پاکستان مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے درمیان حقیقی پل بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت جاری رکھنی ہوگی، کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کر کے کوئی بھی امن پائیدار نہیں ہوسکتا۔ دنیا کو ایسے ممالک کی ضرورت ہے جو تنگ نظری سے بلند ہوکر انصاف، تعاون اور اجتماعی خوشحالی کی بات کریں۔ پاکستان کے پاس اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تاریخی تجربہ اور اخلاقی جواز موجود ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے اندرونی استحکام کو اپنی عالمی امنگوں کے ساتھ ہم آہنگ کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کو عوام دوست اور مستقبل بیں بنائے۔
آخرکار پاکستان کی طاقت کا پیمانہ صرف عسکری قوت یا سفارتی بیانات نہیں ہوں گے بلکہ یہ اس بات سے ماپا جائے گا کہ وہ عالمی سطح پر امن، تعاون اور انسانی وقار کا حقیقی علمبردار کیسے بنتا ہے۔ یہ سفر کٹھن ضرور ہے لیکن موقع تاریخی ہے، اور پاکستان کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے