پاکستان کا قطر پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف دوٹوک موقف
2025 اداریہ—11 ستمبر
اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فلسطینی تنظیم حماس کے دفتر پر فضائی حملہ نہ صرف خطے کی سلامتی کے لیے ایک نیا خطرہ ہے بلکہ یہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ ایک خودمختار ریاست کی سرزمین پر یکطرفہ فوجی کارروائی اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ اسرائیل اپنی جارحانہ پالیسیوں کو وسعت دیتے ہوئے بین الاقوامی حدود کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب حماس کی قیادت غزہ میں جنگ بندی کے امکانات پر غور کر رہی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل امن کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے پر تلا ہوا ہے۔
پاکستان نے بروقت اقدام کرتے ہوئے نہ صرف اس جارحیت کی شدید مذمت کی بلکہ الجزائر اور صومالیہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے عالمی برادری کو متوجہ کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ معاملہ غیر معمولی سنگینی کا حامل ہے اور فوری غور و فکر کا متقاضی ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر قطر کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی اور غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ یہ اقدام اس امر کا مظہر ہے کہ پاکستان امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات اور خطے میں امن و استحکام کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بروقت ردعمل دیتے ہوئے امیرِ قطر سے رابطہ کیا اور اسرائیلی حملے کی مذمت کی۔ پاکستان کا یہ مؤقف اسلامی دنیا کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی بھی مسلم ملک کی خودمختاری پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے۔
تاہم، اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو امریکا کا متضاد رویہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ قطر کو حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی، لیکن قطر نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اس تضاد نے نہ صرف امریکا کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ واشنگٹن اب بھی اسرائیل کی یکطرفہ پالیسیوں کو بالواسطہ سہارا دے رہا ہے۔ اگر امریکا واقعی قطر کو اپنا قریبی اتحادی اور دوست سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکے اور خطے میں امن قائم کرنے میں مثبت کردار ادا کرے۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس حملے سے فلسطینی عوام پر دباؤ بڑھانے اور حماس کی سیاسی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیل نے یہ حملہ اس وقت کیا جب جنگ بندی کی بات چیت جاری تھی۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اسرائیل خطے میں بدامنی کو طول دینا چاہتا ہے تاکہ اپنی تسلط پسند پالیسیوں کو مزید مستحکم کر سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سلامتی کونسل واقعی اس سنگین صورت حال پر کوئی مؤثر قدم اٹھائے گی یا محض قراردادوں اور بیانات تک محدود رہے گی؟ عالمی ادارے کی ساکھ پہلے ہی کئی تنازعات میں غیر مؤثر فیصلوں کے باعث مجروح ہو چکی ہے۔ اگر سلامتی کونسل نے اسرائیلی جارحیت کے اس نئے باب پر بھی کوئی عملی اقدام نہ کیا تو دنیا بھر میں یہ تاثر مزید گہرا ہوگا کہ عالمی ادارے صرف طاقتور ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں۔
پاکستان کا یہ دوٹوک اور اصولی مؤقف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلم دنیا اور دیگر امن پسند ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ امتِ مسلمہ کو اس موقع پر اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ اسرائیل کو واضح پیغام دیا جا سکے کہ کسی بھی مسلم ریاست کی خودمختاری پر حملہ ناقابلِ قبول ہے۔
خطہ پہلے ہی جنگوں، بدامنی اور انسانی بحرانوں کی زد میں ہے۔ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو نہیں روکا تو مشرقِ وسطیٰ ایک بڑے اور طویل تنازعے میں الجھ سکتا ہے جس کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان نے ایک بار پھر درست وقت پر آواز بلند کی ہے، اب باقی دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کا راستہ روکے۔ یہی راستہ عالمی امن اور خطے کی سلامتی کا ضامن ہے۔