پاکستانی نوجوانوں کی ہنر و تعلیم کے ساتھ بیرونِ ملک منتقلی – مواقع یا المیہ؟
بائیس جولائی 2025
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد کل آبادی کا بڑا حصہ ہے۔ یہ نوجوان، اگر مناسب رہنمائی، مواقع اور روزگار حاصل کریں تو کسی بھی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور ہنرمند نوجوان تیزی سے روزگار کے حصول کے لیے بیرونِ ممالک کا رُخ کر رہے ہیں۔ اس رجحان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جو باعث تشویش بھی ہے اور باعث غور بھی۔ حال ہی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خاص طور پر انجینئرز، آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹرز، نرسز، اور دیگر شعبہ جات کے پروفیشنلز مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو اپنے وطن میں خاطر خواہ مواقع، مناسب تنخواہیں، اور پیشہ ورانہ ترقی کی راہیں میسر نہیں ہوتیں۔ نتیجتاً وہ ہنر و علم کی پونجی لے کر غیر ممالک میں جا بستے ہیں، جہاں ان کی قدر ہوتی ہے اور وہ ملکی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے ہیں — مگر کسی اور ملک کی۔
یہ صورت حال پاکستان کے لیے "برین ڈرین” کی واضح علامت ہے۔ جب ایک ملک اپنے بہترین دماغوں اور ہنرمند افراد کو کھو دے، تو وہ نہ صرف اپنی ترقی کی رفتار کھو دیتا ہے بلکہ پالیسی سازی، ادارہ جاتی بہتری، اور سائنسی تحقیق جیسے شعبہ جات میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ اگرچہ بیرون ملک مقیم پاکستانی قیمتی زرمبادلہ بھیج کر ملکی معیشت کو سہارا دیتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر یہی افراد ملک میں مناسب ماحول میسر ہونے پر یہیں خدمات انجام دیتے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوتا۔ اس تناظر میں حکومتِ پاکستان، پالیسی ساز اداروں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبہ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو روزگار، تحقیقی مواقع، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور عالمی معیار کے مطابق کام کرنے کا ماحول فراہم کرے۔ "ریورس برین ڈرین” یعنی واپس آنے والے ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں باوقار مقام دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ صرف سرکاری نوکریاں ہی حل نہیں، بلکہ نجی شعبے، اسٹارٹ اپس، فری لانسنگ، اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کو فروغ دے کر لاکھوں نوجوانوں کو وطن میں ہی باعزت روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ہمارا ملک اپنی سب سے بڑی طاقت — نوجوان نسل — کو کھو دے گا۔ آج کا نوجوان صرف ملازمت نہیں، بلکہ عزت، مواقع اور آگے بڑھنے کی امید چاہتا ہے۔ ہمیں یہ سب اُسے اپنے ہی ملک میں دینا ہوگا۔