شوگر ملوں کا 210 ارب روپے کا بہت بڑا ریونیو اضافی اسٹاک کی صورت میں پھنسا ہوا ہےحکومت اضافی چینی کے اسٹاک کی برآمد کی اجازت دے
۔چینی کےکثیر ذخائر کی وجہ سے کم مقامی خریدار دستیاب ہیں اور شوگر انڈسٹری کوفاضل اسٹاک کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون
بہاول پور : پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کا کہنا ہے کہ متعدد اجلاسوں میں چینی کے سرپلس اسٹاک کی تصدیق کے باوجود حکومت شوگر انڈسٹری کی جانب سے فاضل چینی برآمد کرکے ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ کمانے کی درخواستوں پر پالیسی فیصلے میں تاخیر کررہی ہے۔ ترجمان نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کے متعدد اجلاسوں میں مختلف حکومتی ذرائع سے تعین کردہ فاضل چینی کی مقدار کےذخائر کو برآمد کرکے 850 ملین امریکی ڈالر کمائے جاسکتے ہیں کیونکہ پندرہ لاکھ ٹن چینی ہماری ملکی ضرورت سے زیادہ ہے۔ شوگر ملوں کا 210 ارب روپے کا بہت بڑا ریونیو اضافی اسٹاک کی صورت میں پھنسا ہوا ہے جب سے شوگر انڈسٹری نے حکومت سے چینی برآمد کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی، چینی کی بین الاقوامی قیمت 750 ڈالر فی ٹن سے کم ہو کر 510 ڈالر فی ٹن پر آ گئی ہے ، برآمد کی اجازت میں تاخیرسے قومی خزانے کیلئے انتہائی ضروری زیادہ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا موقع ضائع ہوا۔ گنے کی قیمتوں، شرح سود،ٹیکسز، اجرت اور درآمد شدہ کیمیکل جیسے اہم لاگتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے چینی کی قیمتیں پہلے ہی اس کی پیداواری لاگت سے بہت کم ہیں۔ پچھلے کرشنگ سیزن کے اختتام سے،شوگر ملز سرپلس اسٹاک کو رکھنے کے اضافی اخراجات برداشت کر رہی ہیں جس میں2.25 روپے فی کلو گرام فی مہینہ کی شرح سے بینکوں کا مارک اپ بھی شامل ہے۔چینی کےکثیر ذخائر کی وجہ سے کم مقامی خریدار دستیاب ہیں اور شوگر انڈسٹری کوفاضل اسٹاک کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ فاضل اسٹاک میں سے کم برآمدات اور کیری اوور اسٹاک پر غیر معمولی اخراجات کی وجہ سے، نومبر 2024 میں شروع ہونے والے کرشنگ سیزن میں ملوں کا کرشنگ جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ گنے کی اگلی فصل ایک بار پھر بمپر فصل ہونے والی ہے اور شوگر ملز نتیجتاً چینی کی 15 لاکھ ٹن سے 20 لاکھ ٹن تک کی اضافی پیداوار کریں گی جبکہ ملوں کے پاس سرپلس اسٹاک کو رکھنے کیلئے جگہ نہیں ہوگی۔ شوگر انڈسٹری ایک بار پھر حکومت سے درخواست کرتی ہے کہ وہ قومی مفاد میں فوری طور پر اضافی چینی کے اسٹاک کی برآمد کی اجازت دے، تاکہ شوگر انڈسٹری کا وجود برقرار رہ سکے، ملک کیلئے چینی پیدا کرے اور گنے کے کاشتکاروں کی توقعات پر پورا اترے۔